Tuesday, October 22, 2024

معتدل

 

معتدل

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 433)


اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے بندوں کے درمیان ایک خاص اور خفیہ تعلق ہوتا ہے… اُس خاص تعلق کا نام ہے’’اخلاص‘‘…

سُبْحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْم…
بس بھائیو اور بہنو! بڑا خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے’’اخلاص‘‘ کی دولت نصیب ہو جائے… اچھا یہاں ایک دعاء یاد کر لیں… جی ہاں! ریاکاری سے حفاظت کی دعاء… صبح شام اہتمام سے  پڑھ  لیا کریں…

 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکِ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَئِیًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہ
آسان ترجمہ یہ کہ… یا اﷲ جان بوجھ کر شرک اور ریاکاری کرنے سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں اور جو بھولے چوکے سے بے علمی میں ہو جائے اُس پر معافی مانگتاہوں…

برادر محترم جناب  محمد افضل گوروشہیدؒ کی مؤقر کتاب’’ آئینہ‘‘ ماشاء اﷲ خوب چل رہی ہے… اﷲ تعالیٰ اُن سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے جو اپنے مظلوم اور قابل فخر شہید بھائی کاپیغام مسلمانوں تک پہنچانے کی محنت کر رہے ہیں…’’آئینہ‘‘ کی تقریب رونمائی کی شعاعیں  بھی… الحمدﷲ دور دورتک پھیل رہی ہیں…

اجتماع کو اگرچہ کئی دن گزر چکے مگر ماشاء اﷲ اجتماع کے بیانات گونج رہے ہیں… اورنظمیں لہک رہی ہیں… جب زمین پر بارش برستی ہے وہاں  پھل پھول اُگ آتے ہیں… سبزہ بھی ہر طرف نگاہوں کو خوش کرتا ہے… مگر اس کے ساتھ کیڑے مکوڑے اور زہریلے سانپ بھی باہر آجاتے ہیں… افضل شہیدؒ کا اجتماع بھی بارش کی طرح تھا… بہتسے مسلمانوں نے جہاد کو سمجھا،بہت سے بانصیب افراد  نے جہاد کا عزم کیا… اور بہت سے افراد جہاد میں نکلنے کے لئے مکمل تیار ہو گئے… اجتماع نے تحریک کشمیر میں ایک نیا جذبہ اٹھایا ہے… ان تمام مثبت نتائج کے ساتھ… زہریلے سانپ اور کیڑے مکوڑے بھی تیزی سے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں… لاہور سے لے کر دہلی تک کالے سانپ ایک ہی سُر میں پھنکار رہے ہیں… اور دشمنان اسلام کی صفوںمیں کھلبلی مچ گئی ہے… پہلے ایک انگریزی اخبار نے جہاد اور جماعت کے خلاف زہر اگلا… اور پھر امن کی آشا والے اخبار نے بھی اپنا ’’ترشول‘‘ بلند کر دیا… صحافت اور میڈیا کے بارے میں ہمارا مؤقف الحمدﷲ ’’اعتدال‘‘ پر مبنی ہے… اور وہ یہ کہ ان لوگوں سے نہ دوستی نہ دشمنی… ہم ان کے ذریعہ اپنا پیغام اُمت تک پہنچانے کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی… آج تک ہم نے ایک پیسہ ان حضرات کی ناز برداری پر خرچ کیا ہے… ہم چھوٹے لوگ ہیں… مگر چھوٹے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں، اس لئے بڑوں کا حوالہ دینے میںکوئی حرج  نہیں… اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم خود کو بڑوں کے برابر سمجھتے ہیں… حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا ایک خاص مقولہ ہے:

اسمعت من ناجیت
یعنی میں تو اُس کو سناتا ہوں جس کے لئے میں عمل کرتا ہوں

جہاد کا کام بھی اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے… اور وہی جہاد مقبول ہوتا ہے جو خالص اﷲ تعالیٰ کے لئے ہو اور اعلاء کلمۃ اﷲ کے لئے ہو… آج کل کی’’صحافت‘‘ ایک انتہائی غلط رخ پر چل پڑی ہے…

میڈیا اور صحافت کا اصل کام یہ تھا کہ وہ سچی خبریں ڈھونڈتے… اور پھر ان میں سے وہ خبریں جو  انسانیت کے لئے مفید ہوتی اُن کو چھاپتے… قرآن مجید نے اس بارے میں کئی بہت اونچے اصول تلقین فرمائے ہیں… آپ قرآن مجید میں غور کریں گے تو آپ کو جا بجا مثبت صحافت کے کئی اصول چمکتے دمکتے نظر آئیں گے… سورہ نور کو لے لیجئے… وہ لوگ جو انسانوں میں فحاشی اور بے حیائی پھیلاتے ہیں اُن کو سخت تنبیہ کی گئی… آج کونسا اخبار اس انسانی اور اخلاقی جرم سے خالی ہے؟… فنکاروں اوراداکاروں اور بدکاروں کی رنگین تصاویر اور اُن کی خبریں اور اُن کے برے اعمال کی تشہیر آخر کس مقصد سے کی جاتی ہے؟… خیر یہ ایک تفصیلی موضوع ہے اور آج اسے چھیڑنے کا ارادہ نہیں ہے… آج کی صحافت ذاتی تشہیر اور تجارت کا ذریعہ بن چکی ہے… صحافی ہر اچھی اور  بری خبر کے پیچھے پڑے رہتے ہیں… اور ایسی خبریں نمایاں طور پر شائع کرتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میںطرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں… اکثر صحافی پیسے کے پیچھے اس قدر تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ… اُن کے نزدیک اسلام اور کفر تک میں کوئی فرق نہیں رہتا… وہ ایسی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے عالم کفر خوش ہو اور پھر وہ ان صحافیوں کو طرح طرح کے انعامات اور اپنے ملکوں میں اقامت کے ویزے دے…کافی پہلے کی بات ہے… میں ایک ایسی مجلس میں پھنس گیا جہاں بہت سے صحافی تھے… ان میں سے بعض ایک زبردستی مجھ سے ایسا بیان دلوانا چاہتے تھے جس میں بلاوجہ بعض کفریہ ممالک کے لئے دھمکی ہو… اس پر میں نے ایک صحافی سے کہا کہ آپ بار بار کیوں اصرار کر رہے ہیں کہ میں فلاںملک کو ضرور دھمکی دوں؟… وہ کہنے لگا مولانا! آپ کا کیا جاتا ہے؟ آپ دھمکی دیں گے تویہ بیان دور دور تک چلے گا اور بکے گا اور ہمیں اپنے بچوں  کے لئے چند سو ڈالر مل جائیں گے… ہمارے ملک کے بعض صحافی خود مجاہدین کو چھیڑتے ہیں، تنگ کرتے ہیں اور اُن کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی رپورٹیں لگاتے ہیں… مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح سے وہ امریکہ، انڈیا اور دیگر ممالک کی خوشنودی حاصل کریں گے… اسلام کے خلاف کام کرنے والے تھنک ٹینکس کو اپنی طرف متوجہ کر کے اُن سے مال بٹوریں گے… اور اگر مجاہدین نے انہیں کوئی دھمکی یا جواب دیا تو اسے ٹیپ کر کے فوراً یورپ کے کسی ملک کو پناہ کی درخواست دے دیں گے کہ… ہماری جان کو سخت خطرہ ہے… دوسری طرف ہمارے لیڈروں نے صحافت اور صحافیوں کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے… ہر مشہور شخص اپنے لئے ایک پریس سیکرٹری رکھتا ہے… بڑی پارٹیاں اپنے لئے کالم نگار خریدتی ہیں… جلسوں اور جلوسوں کی کوریج کے لئے ٹی وی چینلوں کی منتیں کی جاتی ہیں اور اُن کے ناز اٹھائے جاتے ہیں… سیاسی پارٹیاں یہ سب کچھ کرتیں تو اتنا بُرا نہ سمجھا جاتا مگر اب تو دین کا کام کرنے والے… اور جہاد کی بات کرنے والے بھی ہروقت صحافیوں کی منتیں ترلے کرتے نظر آتے ہیں… آخر یہ سب کچھ کرنے سے کیا ملتا ہے؟… آپ کام کریں آپ کا کام مضبوط ہوگا تو میڈیا خود ہی مجبور ہو کر آپ کی خبریں لگائے گا… ایسی جماعتیں جو میڈیا سے دور رہتی ہیں اُن کی خبریں کئی کئی دنوںتک ذرائع ابلاغ پر چھائی رہتی ہیں… اور اگر خبریں نہ بھی آئیں اور کام ہوتا رہے تو اس میں آخرت کا بھی بھلا ہے اور دنیا کا بھی… اور اگر خبریں آتی رہیں اور کام کچھ نہ ہو تو اس سے کسی کو دنیا اور آخرت میں کیا ملے گا؟… ٹی وی یا میڈیا پر نام آنا تو کوئی عزت اور کمال کی بات نہیں ہے… ایسے ایسے گندے اور غلیظ لوگ میڈیا پر بھرپور کوریج پاتے ہیں جن کے ساتھ کوئی مسلمان اپنا نام لکھنا بھی کبھی گوارہ نہیں کر سکتا… یاد رکھیں… آج کا مروجہ میڈیا عالم کفر اور صہیونیت کے قبضے میں ہے… آج کے صحافی بے عقیدہ، بے عمل اور غیروں کے لئے کام کرنے والے افراد ہیں… آج کا میڈیا جہاد کو مٹانے اور ختم کرنے کے مشن پر گامزن ہے… اس لئے دین کی سلامتی اسی میں ہے کہ میڈیا سے دور رہا جائے… میڈیا سے بے پرواہ رہا جائے… میڈیا کو کم سے کم دیکھا، سنا اور پڑھا جائے… اور خالص اسلامی صحافت کو اپنے حلقوں میں فروغ دیا جائے… اردو اخبارات میں کالم لکھنے والے اکثر لوگ گمراہ اور بدعمل ہیں… اور ان میں سے کئی ایک باقاعدہ بکے ہوئے لوگ ہیں… ان کے کالم پڑھنے سے دل پر سیاہی، مایوسی اور کفر کے دھبے لگنے کا خطرہ ہوتا ہے… میری آپ سب سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اپنے ایمان کی قدر جانیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے میڈیا، کالم نگاروں اور میڈیائی دانشوروں سے دور رہیں… باقی رہا ہمارے خلاف میڈیا کا لکھنا تو الحمدﷲ ایک رتی کے دانے برابر نہ کوئی فکر ہے اور نہ اس کا  کچھ غم… اگر کوئی صحافی ہمارے خلاف کوئی رپورٹ چلا کر اس انتظار میں ہے کہ ہم اسے دھمکی دیں گے تو وہ اس سے مایوس ہو جائے… اور اگر کوئی اس انتظار میں ہے  کہ ہم اسی اخبار میں تردیدی بیان جاری کریں گے تو وہ بھی اپنا انتظار ختم کر کے نئی رپورٹ تیار کرے… ہم الحمدﷲ اپنے کام سے مطمئن ہیں اور مکمل شرح صدر کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں… ہمارے دشمنوں نے ہمیں پھانسیاں دیںتو الحمدﷲ کام نہیں رکا آپ کی رپورٹیں پھانسیوں سے زیادہ سخت نہیں ہیں… نوائے وقت اور دی نیشن جیسے اخبارات پر تھوڑا سا افسوس ضرور ہوتا ہے کہ ایک طرف نظریہ پاکستان کے بلند بانگ دعوے، جہاد اکبر کے غلغلے… انڈیا تک ٹینک لے جانے کا عزم… اور دوسری طرف انڈیا  کے مقاصد پورے کرنے کے لئے ان مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ جن سے انڈیا… آپ کی بنسبت زیادہ خوف کھاتا ہے… آپ تو معلوم نہیں کس دن ٹینک پر بیٹھ کر انڈیا جائیں گے یہ مجاہدین ہتھیار اٹھاکر انڈیا جاتے ہیں اور الحمدﷲ فاتح بن کر واپس آتے ہیں یا جام شہادت پی جاتے ہیں… والحمدﷲ رب العالمین

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
 لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭


No comments:

Post a Comment