Tuesday, October 15, 2024

المجاہد فی سبیل اللہ

المجاہد فی سبیل اللہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 665)


اللہ تعالیٰ کا شکر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ …اللہ تعالیٰ سے معافی اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ… اللہ تعالیٰ سے سوال اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ…اللہ تعالیٰ کی بے شمار خصوصی رحمتیں صَلَوٰۃُ اللّٰہِ وَسَلَامُہٗ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ…اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، یا اللہ! ہمیں بھی ان کی راہ پر چلا بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ… یا اللہ! طلحہ شہید کے درجات بلند فرما فِیْ اَعْلٰی عِلِّیِّیْنَ…طلحہ کے بارے میں لکھے ہوئے اس مضمون کو قبول فرما آمین یَا خَیْرَ الْغَافِرِیْنَ یَا رَبَّ الشُّہَدَآئِ وَ الْمُجَاہِدِیْنَ
٭…٭…٭
 اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک پیا راسا بھانجا دیا …یہ ۱۹۹۳ء ؁ کا سال تھا… ستمبرکا مہینہ اور جمعہ کا مبارک دن… خاندان میں الحمد للہ ’’جہاد‘‘ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی… جہادی نسبت سے ہی اس کا نام ’’طلحہ‘‘ تجویز ہوا… روئے زمین… اور زمانے کے بہترین مجاہدین میںسے ایک… حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے مبارک نام پر … طلحہ ابھی چار ماہ کا تھا کہ میںکشمیر میں… گرفتار ہوگیا… نہ اس نے مجھے شعورکی آنکھوں سے دیکھا …اور نہ میں اسے جی بھر کر دیکھ پایا… میں واپس آیا تو طلحہ ساتویں سال میں تھا… قرآن مجید حفظ کر رہا تھا… مجھے بہت محبت بھری آنکھوں سے دیکھتا تھا… اس نے قرآن مجید حفظ کیا… اور دینی تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل ہو گیا… ہماری بہت کم ملاقات رہی… پھر میں کہیں دور چلا گیا… وہ ملاقات کے لیے مچلتا تھا… ایک بار وہاں پہنچ گیا تو بس… ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا تھا …پھر وقتاً فوقتاً مختصر ملاقاتیں ہوتی رہیں… آخری سالوں میں وہ مجھے خط بھی لکھتا تھا… ان خطوط سے لگتا تھا کہ… وہ بیمار ہو چکا ہے… ’’مریض محبت‘‘ بن چکا ہے… اسے ’’عشق‘‘ ہو چکا ہے… ایسا سچا عشق جو محبوب کے دیدار کے سوا …اور کسی دواء سے شفاء نہیں پاتا… وہ باصلاحیت تھا… سب چاہتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کام کرے… مگر اس کا ’’عشق‘‘ دیوانگی کی حدود کو چھو رہا تھا… وہ سب سے محبت کرتا تھا مگر اس نے ’’محبوب حقیقی‘‘ بس ایک ہی بنا لیا تھا… اسی کے عشق میں اس کی آنکھوں سے آنسو اُبلتے تھے… اور وہ بے قرار، بے تاب اور مجبور ہو جاتا تھا… یہ عشق اس کی رگ رگ میں اُتر چکا تھا   ؎

رگ رگ میں دل ہے،دل میں تڑپ دردِ عشق کی

محشر بنا ہوا ہوں ، تمنائے یار میں

طلحہ شہید کی داستان بہت عجیب ہے…آج میں اس داستان کا ایک ورق لکھنے بیٹھا ہوں تو… حیران ہوں کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں…  لوگوں کی زندگی ان کی موت پر ختم ہو جاتی ہے جبکہ عاشق اور دیوانے کی زندگی…  اس کی موت سے شروع ہوتی ہے    ؎

یہ عشق نہیںآسان اتنا ہی سمجھ لیجئے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

تھوڑی سی اجازت بھی اے بزم گہ ہستی

آنکلے ہیں دم بھر کو رونا ہے رلانا ہے

تصویر کے دو رخ  ہیں جاں اور غم جاناں

اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے

اشکوں کے تبسم میں آہوں کے ترنم میں

معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے

’’طلحہ‘‘ اس دنیا میں چوبیس سال رہا… اس کے بس میں ہوتا تو وہ چوبیس گھنٹے بھی نہ رہ سکتا… وہ کچھ دیکھ چکا تھا… بس وہی پانا چاہتا تھا    ؎

از سر بالین مر برخیز اے ناداں طبیب

درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست

وہ محبوب کے وصال کیلئے روتارہا، بلکتا رہا، تڑپتا رہا… اپنا گریباں چاک کرتا رہا… گرم سے گرم، خطرناک سے خطرناک… اور سخت سے سخت میدانوں میں کودتا رہا    ؎

اپنے قریب پا کے معطر سی آہٹیں

میں بارہا سلگتی ہوا سے لپٹ گیا

بالآخر اس کو… اپنی منزل ایک گل پوش وادی میں نظر آئی…  مگر وہ وادی اونچی تھی… دور تھی… اور بظاہر طلحہ کے بس سے باہر تھی… مگر وہ عشق ہی کیا جو ہار مان جائے… وہ دیوانگی ہی کیا جو رکا وٹوں اور فاصلوں کو تسلیم کر لے…

٭…٭…٭

  طلحہ شہید کی یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے… آپ اسے پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا … کہ طلحہ کو ن تھا؟… طلحہ کیساتھا؟… طلحہ کہاں رہا؟… طلحہ کہاںگیا؟… یہ کتاب طلحہ شہید نے خود نہیں لکھی… مگر میں اسے ’’طلحہ کی کتاب‘‘ کہتا ہوں…یہ اس کی زندہ کرامت ہے کہ اس کے اہل محبت نے دل کھول کر… طلحہ کے بارے میں لکھا… طلحہ جو دعوت امت کو دینا چاہتا تھا… وہ اس کتاب میں بہت پُرتاثیر آ گئی ہے… اس کے پاس لکھنے کی فرصت نہیں تھی… وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جس کو آڑبنا کر اسے ’’وصال یار‘‘ سے روکا جا سکے… وہ خو د لکھنے بیٹھتا تو کمال کا لکھتا… ماشاء اللہ ہر فن میں ماہر تھا… مگر اسے ڈرتھا کہ اسے لکھنے کے کا م پر نہ بٹھا دیا جائے… مگروہ امت میں جہاد کا درد اور شہادت کا شوق بھی اجاگر کرنا چاہتا تھا… اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص اور وفا دار بندے کی یہ خواہش بھی پوری فرمائی… اور طلحہ کی یہ کتاب دعوت جہاد اور شوق شہادت کا مرقع بن کر امت کے ہاتھوں میں پہنچ گئی… طلحہ سچا عاشق اور سچا دیوانہ تھا… اس کی یہ کتاب بھی اسی پاکیزہ عشق کا مرقع ہے    ؎

رند وہ ہوں کہ غزل بھی وہی رندانہ ہے

معنیٰ و لفظ نہیں بادئہ پیمانہ ہے

واہ کیا مست غزل تونے پڑھی آج جگر

ایک ایک لفظ چھلکتا ہوا پیمانہ ہے

حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ… خود کوئی مصنف نہیں تھے… انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی… اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے عشق کی بازی جیت گئے… تب اللہ تعالیٰ نے زمانے کے اہل علم، اہل قلم کو… ان کی دعوت کے لئے مسخر فرما دیا اور حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت جہاد اس قدر پھیلی کہ… کوئی واعظ، کوئی مصنف صدیاں لگا کر بھی… اس قد ر وسیع اور مؤثر دعوت نہیں پہنچا سکتا… بے شک! جان کی قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں… ماضی قریب کے ایک مصنف کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ وہ سید صاحب کی جہادی تحریک پر تحقیق کریں …اور مکمل تفصیل سے اس تحریک کا حال لکھیں … انہوں نے اپنی زندگی کے سترہ قیمتی سال اس خدمت پر لگا دیئے… اور حضرت سید بادشاہ شہید کی تحریک جہاد پر کئی کتابیں لکھیں… دوران تحقیق ایک بار انہیں خواب میں حضرت سید صاحب شہید کی زیارت ہوئی… حضرت سید صاحب نے ان سے فرمایا:مہر صاحب! آپ نے جو لکھنا ہو لکھیں مگر میرے اصل کام یعنی ’’جہاد‘‘ کو خوب اجاگر کریں… طلحہ شہید کا جینا، مرنا سب جہادکے لئے تھا… اس نے دنیا میں کسی سے کچھ نہیں مانگا… بلکہ اسے اگر کہیں سے کچھ ملنے کی توقع ہوتی تو وہاں سے دور ہو جاتا کہ… کہیں ’’وصال یار‘‘ میں کوئی رکاوٹ نہ بن جائے… وہ جہاد پرا پنا سب کچھ لٹاتا رہا…  اور جب چلا گیا تو اللہ تعالیٰ نے … اس کی مؤثر اور دیوانہ وار دعوت کے پھیلنے کا انتظام فرما دیا… اس کے اہل تعلق نے… راتوں کو جاگ کر اس کتاب پر کام کیا… اور ہر کسی نے اپنا خون جگر نچوڑ کر طلحہ کی یہ کتاب تیار کی… اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ کتاب لاکھوں نوجوانوں کو… حقیقی دین، حقیقی جہاد اور حقیقی عشق کا راستہ دکھائے گی… ان شاء اللہ

٭…٭…٭

  حدیث مبارک آپ نے سنی ہوگی کہ… اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤمِنِ وَ جَنَّۃُ الْکَافِرِ ’’دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت‘‘ …اس حدیث شریف کا اپنے زمانے میں مصداق دیکھنا ہو تو ہم… طلحہ شہیدکی مختصر ایمانی زندگی کو دیکھ سکتے ہیں… ابھی بولنا سیکھا تھا… کہ قرآن مجید کی تعلیم اور حفظ میں پابند ہو گیا… حفظ مکمل ہوا تو دینی تعلیم کی پابندیوں میں جا بیٹھا … ابھی کچھ علم حاصل کیا تھا کہ… عشق کا مرض لگا اور خود کو جہاد کی پر مشقت زندگی میںڈال دیا …وہ کوئی لفظی یا سرسری مجاہد نہیں تھا… مکمل محنت سے ہر جہادی عمل سیکھتا تھا… محاذوں پر پہرے دیتا تھا… آگے بڑھ کر لڑتا تھا… مجاہدین کی دن رات خدمت کرتا تھا… حالانکہ یہ اس کی عمر کا وہ حصہ تھا جب انسان آزادی مانگتا ہے… طرح طرح کی خواہشات کا اسیر بنتاہے… مگر طلحہ دین کا پابند رہا، جہاد کا پابند رہا… پھر اس نے کشمیر جانے کا عزم کیا تو خود کو ہر مشقت اور تکلیف میںڈالا… سردی کے موسم میں ٹھنڈے دریا پار کرنا… پاؤں اور گھٹنے کی تکلیف کے باوجود گھنٹوںپیدل چلنا اور دوڑنا… اور دن را ت شہادت کے لئے تڑپنا   ؎

ہجر جاناں میں غضب شورش مستانہ ہے

روح قالب میں نہیں قید میں دیوانہ ہے

اس دوران وہ مکمل طور پر… ’’سبیل اللہ‘‘ یعنی اللہ کے راستے کا قیدی بنا رہا… حرمین شریفین گیا تو… وہاں بھی بس شہادت ہی مانگتا رہا … اور ’’وصال یار‘‘ کے لئے تڑپتا پھڑکتا رہا   ؎

رہائی ہو نہیں سکتی کبھی قید تعلق کی

جو اک زنجیر ٹوٹی دوسری زنجیر دیکھیں گے

بے شک ایسے ہی افراد کے لئے… ’’موت‘‘ روزہ افطار کرنے جیسی لذیذ ہوتی ہے … وہ دنیا میں قیدی اور روزہ دارکی طرح رہتے ہیں… اور موت سے ان کی یہ قید اور روزہ ختم ہوتا ہے… ایک کم عمر نوجوان کو… کامیابی کا یہ راز سمجھ آ گیا… کاش! ہم سب اسے سمجھ لیں… اور اپنی زندگی… بے کار آزادیوں اور خواہشات میں ضائع نہ کریں   ؎

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے

وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے

بے بازوئے حیدر ، درِ خیبر نہیں گرتا

٭…٭…٭

آپ نے ’’فضائل جہاد‘‘ کتاب پڑھی ہے؟ …یہ ایک عربی کتاب ’’مشارع الاشواق‘‘ کا ترجمہ ہے… ’’مشارع الاشواق‘‘ (شوق کی راہیں) کتاب کے مصنف خود ایک بڑے عالم اور مجاہد تھے… اللہ تعالیٰ نے انہیں ’’شہادت‘‘ سے نوازا… یہ کتاب ’’جہاد‘‘ کے فضائل پر… قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور اسلاف کے قصوں کا مجموعہ ہے… دین اسلام کی ایک خاصیت یہ ہے کہ…یہ دین کبھی پرانا نہیںہوتا… ہر زمانے میں… دین اسلام کے ہر حکم پر عمل کرنے والے افراد موجود رہتے ہیں… اب آپ فضائل جہاد کے ایک ایک باب کو کھولتے جائیں… اور ہمارے زمانے کے ایک نوجوان مجاہد… طلحہ شہید کی سوانح دیکھتے جائیں… بلامبالغہ آپ کو حیرت ہو گی کہ… فضائل جہاد جس طرح کا ’’مجاہد‘‘ دکھانا اور بنانا چاہتی ہے… طلحہ شہید بالکل ویسا مکمل مجاہد تھا… آپ نیت جہاد سے لے کر شوق شہادت تک… زخم جہاد سے لے کر اموال جہاد میں امانت تک… جہاد کی تیاری سے لے کر رباط تک… تیر اندازی سے لے کر گھڑ سواری تک … خدمت مجاہدین سے لے کر انفاق فی سبیل اللہ تک… ہر عمل کو طلحہ شہید میں زندہ پائیں گے… واقعی یہ دین اسلام کی کرامت ہے… یہ سچے جہاد کی کرامت ہے… اور یہ طلحہ شہید کی سعادت ہے …طلحہ بیٹے! بہت مبارک ہو… آپ نے نوجوانی میں اتنے فضائل جمع کئے… اتنی کرامات حاصل کیں… اور میدان وفا کے حقدار شہزادے بن گئے    ؎

اس کوچے میں ہوں صورت یک نقش وفا میں

دنیا نے مٹایا مجھے لیکن نہ مٹا میں

بُن بُن کے مٹاؤ نہ مرا نقشہ ہستی

مٹ  مٹ  کے  بنا ہوں ہمہ  تن  نقشِ  وفا  میں

اے اہل حقیقت مجھے آنکھوں پہ بٹھاؤ

طے کر کے چلا آتا ہوں میدان وفا میں

٭…٭…٭

جیلوں میں اکثر قیدی… رہائی کو ہی اپنی فکر اور اپنی دُھن بنا لیتے ہیں… پھران کی ہر دعاء، ہر عبادت اور ہر کوشش کا مرکزی نکتہ… رہائی ہوتی ہے… بعض افراد پر یہ دُھن ایسی سوار ہوتی ہے کہ… اس کے لئے ناجائز طریقے اختیار کرنے سے بھی باز نہیں آتے… اسی طرح بعض مریضوں پر صحت پانے کی فکر اور دُھن سوار ہو جاتی ہے… تب ان کی دعاء، ان کی عبادت اور ان کی ہر کوشش… صحت کی خواہش میں صرف ہوتی ہے…اور بعض اوقات وہ صحت پانے کے لئے … حرام راستے بھی اختیار کرنے سے نہیں چوکتے … اسی طرح وہ افراد جن کو موت یا سزائے موت کا خطرہ ہو… وہ بھی اکثر اپنی موت کو ٹالنے کے لئے… ہر کوشش، ہر طریقہ اور ہر حیلہ اختیار کرتے ہیں اور بعض افراد تو… اپنی روح نکلنے تک اپنے قاتلوں کے سامنے روتے، ہاتھ جوڑتے اورزندگی کی بھیک مانگتے مر جاتے ہیں… حالانکہ یہ سب افراد جانتے ہیں کہ… یہ دنیا فانی ہے… اس کی رہائی، اس کی صحت اور اس کی زندگی سب فانی ہیں… مگر انسان عجیب ہے کہ وہ ان فانی چیزوں کی فکر کو اپنا ’’حال‘‘ بنا لیتا ہے… اللہ تعالیٰ ایسے ’’حال‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…  مگر دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے صادق اور وفادار عاشق… اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کے حضور اپنی جان پیش کرنے کی فکر اور دُھن اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں… ایسے افراد چونکہ اللہ تعالیٰ سے جان کا سودا کرتے ہیں تو ان کے ہر عمل میں … جان پڑ جاتی ہے… گویا کہ وہ جان دے کر جان پانے کا گُرسیکھ جاتے ہیں… وہ زندگی دے کر زندگی حاصل کرنے کا راز جان لیتے ہیں… تب ان کی عبادت بھی جان دار… ان کی دعاء بھی جان دار… ان کی نیکیاں بھی جان دار… ان کی دعائیں بھی جان دار… اور ان کی موت بھی جان دار زندگی بن جاتی ہے… طلحہ شہید بھی ان خوش نصیب… صادق اور وفادار بندوں میں شامل تھے جو اس راز کو پاگئے… طلحہ شہیدؒ نے اپنی جان اللہ تعالیٰ کو پیش کرنے کے لئے جو جو محنتیں کیں … جس طرح فکر کی… وہ سب حیرت انگیز ہے … کیا کوئی انسان مرنے کے لئے بھی… اتنی محنت، اتنی کوشش اور اتنی فکر کر سکتا ہے؟… ہاں بے شک… جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچان جائے… جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں دیوانہ ہو جائے… اور جسے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہو جائے… وہ یہ سب کچھ کرتا ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صدق و وفا کا یہ جام… اپنے فضل سے پلائے…

٭…٭…٭

طلحہ شہید سے میری بہت قریبی رشتہ داری تھی … مگراس کے باوجود… ہم ایک دوسرے سے دوردور رہے… وہ بھی مسافر تھا اور میں بھی مسافر … کبھی کبھار ملاقات ہوتی مگر بہت مختصر… چند باراس نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے کچھ اسباق پڑھا دیں… حدیث شریف پڑھا دیں… میرا بھی بہت دل چاہا کہ ایسا ہو… مگر نہ ہو سکا… اس نے دوران تعلیم… اسباق چھوڑ کر راہ جہاد کو اختیار کیا تو ہم سب کی رائے تھی کہ وہ تعلیم مکمل کرے… چھٹیوں میں محاذوں پر جاتا رہے… مگراس پر حال طاری تھا… وہ چاہتا تھا کہ میں … اس کے اس اقدام کی اسے باقاعدہ اجازت دے دوں… پھر اس نے خط لکھ کر… بیعت کی خواہش ظاہر کی… ایک ملاقات ہوئی اور ماموں، بھانجا… پیر مرید بن گئے… مگر ہم دونوں میں محبت اور دوری کا سلسلہ پھر بھی برقرار رہا… حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جب مال وغیرہ کے معاملات میں لوگوں پر… اور خود پر بہت سختی فرماتے تو… ایک بڑے صحابی نے ان کی صفائی ان الفاظ میں بیان فرمائی کہ:

’’ابوذرکوایک علم حاصل ہوا ہے اور وہ اس علم کے سامنے مجبور اور بے بس  ہو چکے ہیں‘‘

یعنی ابوذر رضی اللہ عنہ پر اپنے علم کا ایساحال طاری ہو چکا ہے کہ… یہ اس سے باہر قدم رکھنے کی ہمت ہی نہیں پاتے… یہ اپنے علم کے ہاتھوں مجبور ہیں… اور اسی پر عمل کرنے کے پابند ہو چکے ہیں…

طلحہ پر بھی… لقاء اللہ… شوق شہادت اور قربانی کے علم کا ایسا رنگ چڑھا کہ وہ اس علم سے باہر قدم رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا… وہ اپنے علم کے سامنے ایسا مجبور اور مغلوب ہو چکا تھا کہ …جہاد کے کام کی کوئی اور تشکیل بھی اسے گوارہ نہیں تھی… ایک بار اس کا ایک مفصل خط مجھے ملا … خط کیا تھا… لاڈ، ناز، پیار، ادب اور جھگڑے کا ایک مرکب تھا… وہ خط اس نے پوری رات جاگ کر کشمیر کے محاذ کے قریب کہیںسے لکھا تھا … میں نے اس خط کو کافی تلاش کیا تاکہ اس کتاب میں شائع کر سکوں… مگر وہ مجھے نہیں ملا … ممکن ہے طلحہ کی دعاء کا اثر ہو… کیونکہ وہ یہ خط لکھنے کے بعد کچھ شرمایا شرمایا سا رہتا تھا… اس خط میں اس نے اپنے شوق شہادت کو جس طرح بیان کیا… وہ سب کچھ قابل رشک بھی ہے اور قابل غور بھی… اس نے لکھا کہ… آج میں اپنے امیر اور اپنے مرشد کو نہیں بلکہ… آپ کے بیٹے اور بھانجے کے طور پر یہ خط اپنے پیارے ماموں کو لکھ رہا ہوں… اور پھروہ اپنے جذبات میں مغلوب ہوتا چلا گیا… اس کا پورا زور اس پر تھا کہ میں اسے فدائی کاروائی کی باقاعدہ اجازت دے دوں… مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ… طلحہ شہیدنے شہادت پانے کے لئے… ہر گُر، ہرطریقہ… اور ہر کوشش کو بروئے کار لایا… مگرمیں اپنی جماعتی ذمہ داری اور جماعتی قوانین کے سامنے مجبور تھا… نہ اسے روک سکتا تھا… اور نہ طالبعلمی کے دوران اس کو کھلی اجازت دے سکتا تھا… بس یہی اس کے دل کا ایک کانٹا تھا… آخری ملاقات میں جب وہ ملنے آیا تو تنہائی تھی… اس نے بار بار معافی مانگی… بالآخرمیں نے کہا… طلحہ! میں خوش ہوں… خوشی سے اجازت ہے… اور میری ناراضی کے بارے میں بالکل بے فکر ہو جاؤ… بس یہ الفاظ سنتے ہی اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح کھل اٹھا… یوں لگا کہ دل کا کانٹا نکل گیا ہے… اور خوشی اس کے انگ انگ میں سرایت کر گئی ہے… بس یہ آخری ملاقات تھی… یہ ملاقات مجھے… کبھی بھی نہیں بھولے گی… مگراس ملاقات کی کچھ کیفیت بیان کرنے کے لئے جگر مرحوم کی ایک نظم کا سہارا لیناپڑے گا   ؎      

مدت میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالم

خاموش اداؤں میں وہ جذبات کا عالم

نغموں میں سمویا ہوا وہ رات کا عالم

وہ عطر میں ڈوبے ہوئے لمحات کا عالم

اللہ رے وہ شدتِ جذبات کا عالم

کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم

عارض سے ڈھلکتے ہوئے شبنم کے وہ قطرے

آنکھوں سے جھلکتا ہوا برسات کا عالم

وہ نظروں ہی  نظروں میں  سوالات کی دنیا

وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالم

تھک جانے کے انداز میں وہ دعوتِ جرأ ت

کھو جانے کی صورت میں وہ جذبات کا عالم

وہ عارضِ پُرنور ، وہ کیفِ نگہِ شوق!

جیسے کہ دمِ صبح مناجات کا عالم

دو بچھڑے دِلوں کی وہ بَہَم صلح و صفائی

پُر کیف وہ تجدیدِ ملاقات کا عالم

وہ عرش تا فرش برستے ہوئے انوار

وہ تَہنِیَتِ ارض و سماوات کا عالم

تا صبح وہ تصدیقِ محبت کے نظارے

تا شام وہ فخر و مُباہات کا عالم

وہ عِشق کی بربادئی زندہ کا مُرقّع

وہ حُسن کی پائندہ کرامات کا عالم

طلحہ شہید نے… عبادت، ریاضت، پاکیزگی… دعاء اور آہ و بکا سے اپنی جان کو قیمتی بنایا اور یہ جان… اللہ تعالیٰ کو بیچ دی…  اس کے روشن دل اور بے قرار روح نے اپنی منزل ایک اونچی گل پوش وادی میں دیکھ لی… اس نے کشمیر کے لئے ’’رخت سفر‘‘ باندھا… ہرکسی نے اس کے عزم کی تکمیل کو… ناممکن قرار دیا… مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے سچے عشق کی لاج رکھی… تب پہاڑوں کو بچھا دیا گیا… فاصلوں کو سمیٹ دیا گیا …اور ہفتوںکی مسافت کو گھنٹوں کے سفر میں تبدیل فرما دیا گیا…

مَنْ اَحَبَّ لِقَآئَ اللّٰہِ اَحَبَّ اللّٰہُ لِقَآئَ ہٗ
جو محبوب سے ملنا چاہتے ہیں… محبوب بھی ان سے ملنا پسند فرماتا ہے…

طلحہ کشمیر پہنچ گیا… وہ کشمیر فتح نہیں کر سکا … مگر جہاد کشمیر کی حقانیت کی دلیل بن گیا… اس نے کعبہ سے لپٹ کر شہادت مانگی… اس نے روضۂ اطہر پر شہادت کی التجائیں کیں… اس نے شہداء احد کے قدموں میں شوق شہادت کے آنسو بہائے… اس نے شہداء بدر کے پاس بیٹھ کر… اپنا گریباں چاک کر کے اللہ تعالیٰ سے شہادت کا سوال کیا… اس نے اپنی ہر نماز، ہر عبادت اور ہر خدمت کے بعد شہادت مانگی… اس نے شادی کو ٹھکرایا… دنیا کو چھوڑا… ماں باپ کی محبت قربان کی… ننھے منے بھائیوں کے پیار کو قربان کیا… اپنی بہنوں کے آنسو پونچھے… اپنی پیاری نانی اماں سے شہادت کی دعائیں کرائیں… جب ایسا سچا مجاہد، سچا عاشق کشمیر میں جا کر جان دیتا ہے تو…یہ جہاد کشمیر کی حقانیت کی بہت روشن دلیل ہے… اس نے کشمیر میں جا کر کوئی بڑا طوفان نہیں اُٹھایا… مگر اپنی جان دے کر اس نے جہاد کشمیر کا پانسہ… مجاہدین کے حق میں پلٹ دیا …بے شک شہید کی قربانی… ہزاروں حملوں سے زیادہ دشمن کو نقصان پہنچاتی ہے   ؎

دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر

میدان کار زار کا پانسہ پلٹ گیا

طلحہ نے آخری معرکہ… بہت جانبازی سے لڑا… دشمنوں کو بھر پور نقصان پہنچایا… اور آخر میں… تخت دہلی پر… اپنا سرفراز سر گاڑ دیا … یعنی فتح اور اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا… طلحہ شہید کی شہادت کے بعد… کشمیر کی صورتحال میں بہت تبدیلی آئی ہے… آج وہاں روزانہ کی بنیاد پر نئے مجاہدین میدان وفا میں اتر رہے ہیں… اور تخت دہلی مجاہدین کی یلغار سے لرز رہا ہے…زمانہ دیکھے گا کہ… طلحہ شہید کا پاکیزہ خون… اسلام، حریت اور آزادی کے کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے … میرے پیارے بھانجے… میرے شیخ اور مرشد میری آنکھوں کی ٹھنڈک… اے طلحہ!… منزل مبارک، شہادت مبارک ہو…

لاالہ الا اللّٰہ، لاالہ الا اللّٰہ، لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللھم صل وسلم وبارک علٰی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً کثیراً

لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


 

2 comments:

  1. Allah hame Bhe Talha bhai ka jazba Nasseb kare

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمين يا رب العالمين

      Delete