مجاہدہ مشاہدہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 429)
اﷲ تعالیٰ کی خاطرجو لوگ تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔۔۔ اﷲ تعالیٰ اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔۔۔ ہمارے بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ نے بہت تکلیفیں برداشت کیں۔۔۔ وہ ’’مجاہدۂ نفس‘‘ کے اُس مقام پر پہنچے، جس کا تصور بھی عام انسانوں کے لئے مشکل ہے۔۔۔انڈیا کے مشرک۔۔۔ دنیا کی غیر مہذب ترین قوم ہیں۔۔۔ آپ یقین کریں، انتہائی بدترین قوم۔۔۔ نہ اخلاق، نہ حیا، نہ غیرت اورنہ کوئی اصول۔۔۔ بس جانوروں کی طرح مفاد پرست، ہرطرح سے آزاد۔۔۔ اور ہر طرح کے انسانی جذبوں سے عاری۔۔۔ وہ اپنے قیدیوں کے ساتھ ایسا بُرا سلوک کرتے ہیں، جس کا کسی اور ملک یا قوم میں رواج نہیں۔۔۔ بھائی محمد افضلؒ نے ایسے ظالموں کی قید میں مسلسل تیرہ سال کاٹے۔۔۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ’’جیل‘‘ کی آزمائش’’اضطراری‘‘ ہوتی ہے۔۔۔ یعنی جبراً انسان پر مسلّط ہوجاتی ہے، کوئی اپنی مرضی سے توجیل جاتانہیں۔۔۔ اس لئے اسے’’مجاہدۂ نفس‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ کیونکہ یہ’’مجاہدہ‘‘ اپنے اختیاراور اپنی مرضی سے نہیں کیا جاتا۔۔۔لوگوں کی یہ سوچ غلط ہے۔۔۔ اول توایسے راستے کو اختیار کرنا جس میں قید اور جیل آسکتی ہو یہ انسان کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے۔۔۔ دوسرا یہ کہ جیل جانے کے بعد انسان کے لئے آرام اور راحت حاصل کرنے کے کئی راستے کھلے رہتے ہیں۔۔۔ جموںکشمیر میں انڈین حکمرانوں نے ایک ایسی جیل بھی بنا رکھی ہے جہاں کی سہولتیں بعض معاملات میں آزادی سے بھی زیادہ ہیں۔۔۔ جو کچے افراد جہاد میں آجاتے ہیں اور پھرتھوڑی سی تکلیف اورمجاہدہ بھی برداشت نہیں کر سکتے بلکہ گرفتار ہوتے ہی دشمن کے قدموںمیں گر جاتے ہیں۔۔۔ اور اُن کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں ایسے افراد کو اُس جیل میں رکھا جاتاہے۔۔۔ اور وہاںاُن کے اخلاق اورعادات کومزید بگاڑاجاتا ہے۔۔۔ جیلوں میں بیٹھ کر کئی افراد نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور ہر وہ ناجائز لذت حاصل کی جو بہت سے آزاد افرادکو بھی آسانی سے میسّر نہیں آتی۔۔۔ اس لئے دشمن کی جیل میں اپنے ایمان اور جہاد پر ثابت قدم رہنا۔۔۔ وہ عمل ہے جو انسان کو بہت سے ’’مجاہدات‘‘اور تکلیفوں میں ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے۔۔۔ اسی طرح جیل میں اپنے دینی اعمال پر ثابت قدم رہنا بھی آسان کام نہیں ہوتا۔۔۔ وہاں کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ نے نماز پڑھی یا نہیں۔۔۔ وقت پر پڑھی یاقضا کردی۔۔۔ صبح دس بجے اٹھے یاچار بجے۔۔۔ وہاں معمولات کے بارے میں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔۔۔ اور دشمن کی جیل میں یہ دعوت چلانے والے شیاطین بکثرت پائے جاتے ہیں کہ۔۔۔ خود کو’’سیکولر‘‘ بنا کر رکھو تاکہ آزادی مل سکے اورجیل میں زیادہ سختی نہ ہو۔۔۔ بہت سے باریش افراد اسی پھندے میں پھنس کر داڑھی سے محروم ہوئے۔۔۔کئی نے نمازیں ترک کر دیں اورکئی نے دینی اعمال اور اچھے کردار سے ہاتھ دھولئے۔۔۔ آپ اپنے ملک میں چاروں طرف نظر دوڑائیں آپ کو ایسی کئی شخصیات نظر آجائیں گی۔۔۔ جنہوں نے محض چارچھ ماہ کی قید میں ہی اپنے’’نظریات‘‘ بدل لئے۔۔۔ بھائی محمد افضل شہیدؒ تیرہ سال تک ایسے ظالم اور موذی دشمن کی قید میں رہے۔۔۔ مگر اُن کے نظریات میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔۔۔ بلکہ اُن کے عزم اورشرح صدر میںمزید اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔۔۔ وہ شادی شدہ تھے اور شادی شدہ افراد کے لئے جیل کاٹنا کنوارے افراد کی بنسبت کافی مشکل ہوتا ہے۔۔۔ اُن کا ایک معصوم پھول جیساپیارا بیٹا تھا۔۔۔ اس بچے نے جب سے شعور کی آنکھیں کھولیں اپنے والدکو سلاخوں کے پیچھے ہی دیکھا۔۔۔ مگر اُسے یہ بات کبھی نہیں بھولے گی کہ اُس نے اپنے باپ کو ہمیشہ مسکراتے ہی دیکھا۔۔۔ اُن کی اہلیہ کو اپنے خاوند کی قید کے دوران سوپور سے دہلی تک ڈھائی ہزار بار سفر کرنا پڑا۔۔۔ کوئی اور ہوتا تو اپیلیں، فریادیں، انسانی حقوق کی دھائیاں اور حکمرانوں کی منت سماجت کے راستے ڈھونڈتا۔۔۔ مگر یہاں ماشاء اﷲ ہر منظر ایمان اور زندگی سے بھرپور ہے۔۔۔ لوگ جیلوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی درخواستیں لکھتے ہیں۔۔۔ اپنی رہائی کے لئے بااثرافراد کو خطوط لکھواتے ہیں۔۔۔ مگر بھائی محمد افضلؒ کے ہاتھ میں جب قلم آیا تو وہ آفاق شہیدؒ کی داستان لکھنے بیٹھ گئے۔۔۔ انہوں نے کشمیر کے نوجوانوں کو سمجھایا کہ پتھر چھوڑو بندوق اٹھاؤ۔۔۔ انہوں نے گاندھی واد اور عدم تشدد کا پرچارکرنے والے لیڈروں کے مکر کا پردہ چاک کیا۔۔۔ اور مسلمانوں کو ایمان اور جہاد کی طرف کھینچنے والا ایک ’’آئینہ‘‘ تیار کر ڈالا۔۔۔ ایک بات یاد رکھیں دنیا میں کسی انسان کی دنیاوی خواہش مکمل پوری نہیں ہوتی۔۔۔ جو میاں بیوی ساتھ رہتے ہیں وہ بھی بالآخر ایک دن جدا ہوجاتے ہیں۔۔۔ بیس سال دودھ اور شہد کی طرح محبت میں ساتھ رہنے والے میاں بیوی کے درمیان جب اچانک نفرت کی لکیر آتی ہے تو انہیں آپس میں ایک ساتھ گزارا ہوا ایک دن بھی یاد نہیں رہتا۔۔۔ انسان ساری زندگی شاہانہ کھانے کھائے صرف ایک دن معدے کا درد اٹھے تو یہ تک یاد نہیںرہتا کہ پوری زندگی بکرے کھائے یا دال۔۔۔ بس ہر چیز بری لگنے لگتی ہے۔۔۔ انسان دنیا میںجتنی بھی دنیوی عزت پالے پھر بھی اُس کے اندر کا احساس تنہائی ختم نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ نفس پرست انسانوں کا نفس ۔۔۔ نعوذباﷲ خدائی کا دعویدارہوتا ہے اور وہ سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق چاہتا ہے۔۔۔ اورپھر جب سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ہے تو انسان۔۔۔محرومی کے احساس میں تڑپنے لگتا ہے۔۔۔
اس لئے یہ سوچنا کہ جس کو دنیا میں کچھ نہیں ملا۔۔۔ وہ ناکام ہے۔۔۔ یہ بڑی غلط سوچ ہے۔۔۔ دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کیا ملا؟۔۔۔ آج اُن کے نام پر ویٹی کن میں سونے کی ریاست قائم ہے۔۔۔ مگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی غریبی، مسکینی اور مظالم سہتے ہوئے گزری۔۔۔ اور بالآخر اُن کے دشمنوں نے انہیں اپنے گمان میں سولی پر قتل کر دیا۔۔۔ تب اﷲ تعالیٰ نے انہیں زندہ سلامت اسی دنیوی زندگی کے ساتھ آسمانوں پر اٹھا لیا۔۔۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کامیاب رہے، اُن کی کامیابی میں شک کرنا بھی کفر ہے۔۔۔ مگر اپنی زندگی میں انہوں نے اس دنیا میں کیا پایا؟۔۔۔ معلوم ہوگیا کہ جو دنیا میں اپنے مجاہدات اور تکلیفوں کا دنیوی بدلہ نہ پائے وہ زیادہ بڑا کامیاب ہوتا ہے۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے جب لاہور والے’’داتا جی‘‘ کا عرس منا رہے تھے، پورا لاہور بند تھا۔۔۔ اربوں پتی حکمران پھول چڑھانے مزار پر جارہے تھے۔۔۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے اس عرس میں اِدھر اُدھر ہورہے تھے۔۔۔ ہر طرف دیگیں ہی دیگیں پک رہی تھیں۔۔۔ تب مجھے خود حضرت ہجویریؒ کی زندگی کے مجاہدات اور تکلیفیں یاد آئیں کہ۔۔۔ لاہوریوں نے اُن کی زندگی میں اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔۔۔ اور اب اُن کے وصال کے بعد کیا معاملہ کر رہے ہیں۔۔۔ حضرت ہجویریؒ کا اسم گرامی’’علی‘‘ اور والد محترم کا نام’’عثمان‘‘ ہے۔۔۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اور قبیلہ سادات کے چشم و چراغ تھے۔۔۔ ان سب چیزوں کو جوڑیں تو پورا نام یوں بنتا ہے۔۔۔
سید ابوالحسن علی بن عثمان ہجویریؒ
آپ لاہور کے رہنے والے نہیں تھے۔۔۔ بلکہ افغانی تھے یعنی غزنی کے رہنے والے تھے۔۔۔ لاہور میں آپ جب اپنی مایہ ناز کتاب’’کشف المحجوب‘‘ لکھ رہے تھے تو آپ نے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ۔۔۔ میں یہاں لاہور میں اپنے ناجنسوں۔۔۔ یعنی غیر مانوس لوگوں کے درمیان ہوں اور میرا کتب خانہ غزنی میں رکھا ہے۔۔۔ اﷲ تعالیٰ کے اس مقبول ولی کی پوری زندگی اسفار اور مجاہدات میں گزری۔۔۔ اور دنیا میں ناقدری کے ایسے واقعات پیش آئے کہ آج کے بزرگ اُن کا تحمل نہیں کر سکتے۔۔۔
مگر آج ساری دنیا مانتی ہے کہ۔۔۔ حضرت ہجویریؒ کامیاب تھے اور اُن کا فیض آج تک جاری ہے۔۔۔ مصر کے معروف زمانہ ولی حضرت ذوالنون مصریؒ کے بارے میں آتا ہے کہ۔۔۔ اُن کے شہر اور محلے کے لوگ تک اُن کو نہیں پہچانتے تھے۔۔۔ جبکہ آج ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی دکاندار ہمیں زیادہ رعایت نہ دے تو ہمیںخطرہ لگنے لگتا ہے کہ۔۔۔ شاید ہماری نماز قبول نہیں ہوئی ہو گی۔۔۔ کیونکہ اگر نماز قبول ہوتی تو یہ دکاندار ہمیں زیادہ رعایت دیتا اور ہمارا زیادہ اکرام کرتا۔۔۔
اَسْتَغْفِرُاﷲ، اَسْتَغْفِرُاﷲ، اَسْتَغْفِرُاﷲ
کتنے خسارے کی بات ہے کہ۔۔۔ ہر نیکی کا بدلہ دنیا ہی میں پانے کی خواہش انسان کے دل پر سوار ہوجائے۔۔۔
بھائی محمد افضل گوروؒ نے جیل میں بھرپور’’مجاہدہ‘‘پایا۔۔۔ ایسے ’’مجاہدہ‘‘ سے انسان کے اندر کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔۔۔ اور اُسے ’’حقائق‘‘ کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے۔۔۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔۔۔ چار پانچ سال کے ایک بچے کو بتایا جائے کہ ہم آپ کو۔۔۔ اسم اعظم سکھا دیں گے۔۔۔ یہ وہ اسم ہے کہ جس کو پڑھ کر آپ جو کچھ مانگیں گے۔۔۔ وہ فوراً مل جائے گا۔۔۔ اب وہ بچہ کیا مانگے گا۔۔۔ بہت سی چاکلیٹ، ٹافیوں کے بھرے ہوئے پیکٹ۔۔۔ اوریہ کہ میری امی مجھے دودھ کا فیڈر لبالب بھر کر دیا کرے۔۔۔ آپ اس بچے کو لاکھ سمجھائیں کہ بیٹا آپ وزارت عظمٰی مانگیں،لندن میں فلیٹ مانگیں، امریکہ کا گرین کارڈ مانگیں۔۔۔ خوبصورت دلہن مانگیں۔۔۔ مگر وہ نہیں سمجھے گا،بلکہ ڈرے گاکہ دلہن آگئی تو آدھی ٹافیاں وہ کھا جائے گی۔۔۔ اب دوسرا منظر آپ کسی بالغ عمر کے شخص کو اسم اعظم بتائیں۔۔۔ کیا وہ بھی ٹافیاں اور چاکلیٹ مانگے گا؟۔۔۔ بلکہ اگر اُسے کہا جائے کہ اسم اعظم کے ذریعہ دعاء کر کے ٹافیاں مانگو تو اُسے ہنسی آئے گی اور یہ سب کچھ مذاق معلوم ہوگا۔۔۔
یس یہی حال اُن لوگوں کا ہے جن کو ’’مشاہدہ‘‘ نصیب ہو۔۔۔ یعنی دیکھنے کی طاقت۔۔۔ اُن کو دنیا کی یہ پوری زندگی ایک ٹافی جیسی لگتی ہے۔۔۔ یہاںکی حکومت، یہاں کی عزت، یہاںکی شہوات، یہاں کی خواہشات۔۔۔ بس ایک ٹافی کے برابر۔۔۔ اور آخرت ہمیشہ ہمیشہ کی دائمی لذت۔۔۔ چنانچہ وہ باوجود اسم اعظم رکھنے کے کبھی دنیانہیں مانگتے۔۔۔ بلکہ دنیا کی ناقدری اور دنیا کے دکھ درد پر صبر کر لیتے ہیں۔۔۔ اور یوں کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔ ایک اﷲ والے بزرگ نے کسی کو بتایا کہ۔۔۔ میرا ہمیشہ تہجد کا معمول ہے۔۔۔اوراب یہ حالت ہے کہ تہجد کے وقت مجھے پوری دنیا ایک چھوٹے سے خوبصورت گلدستے کی طرح نظر آتی ہے۔۔۔ اوروہ گلدستہ میرے سامنے رکھا ہوتاہے۔۔۔ سننے والے نے تڑپ کر کہا! پھر آپ اس گلدستے کے کسی حصے پر اپنا ہاتھ کیوں نہیں رکھ دیتے؟ یعنی دنیا میں سے وافر حصہ لے کیوںنہیں لیتے؟۔۔۔ وہ فرمانے لگے کہ ! اگرمیں تہجد کی نماز کے بدلے اتنی چھوٹی سی دنیا لے لوں تو اس سے بڑا خسارے والا سودا اور کیا ہوگا؟۔۔۔ انڈین حکومت اپنی پارلیمنٹ پر حملے کی وجہ سے سخت شرمندگی، ذلت اور غصے کا شکار تھی اور اُس کے ہاتھ میں۔۔۔ یہ سارے بوجھ اتارنے کے لئے ایک ہی مظلوم جان تھی۔۔۔ اور وہ تھے ہمارے پیارے بھائی محمد افضل گورو شہیدؒ۔۔۔ انڈیا غصے اور غم سے پھٹ رہا تھا جبکہ۔۔۔ پُرسکون ’’افضل‘‘ جیل میں ’’مشاہدے‘‘ کی اونچی منزلیں طئے کررہا تھا۔۔۔ بالآخر اُس کا ’’شرح صدر‘‘ ایک خاص مقام تک پہنچا تو۔۔۔’’آئینہ‘‘ نامی کتاب قلم سے کاغذ پر اُتر آئی۔۔۔ الحمدﷲ یہ کتاب شائع ہو چکی ہے۔۔۔ ہمارا پہلا ہدف کتاب کے ایک لاکھ نسخے مسلمانوںتک پہنچانے کا ہے۔۔۔ آپ سب اس مبارک کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔ایک زندہ، ایک شہید اور ایک مقبول انسان کے دینی کام کو ہم آگے بڑھائیں گے تو۔۔۔ ان شاء اﷲ ہمیں بھی زندگی اور قبولیت ملے گی۔۔۔
بندہ نے چند نسخے خرید کر تقسیم کرنے کی نیت کر لی ہے۔۔۔ آپ بھی کرلیں اور جلد اپنی نیت کو عمل تک پہنچائیں۔۔۔ الحمدﷲ پورے ملک سے کتاب کے لئے ’’آرڈر‘‘ مکتبے کو موصول ہو رہے ہیں اور اہل مکتبہ کے پریشانی سے ہاتھ پاؤںپھول رہے ہیں۔۔۔ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ۔۔۔ بلاشبہ شہید زندہ ہے۔۔۔
26جنوری۴۱۰۲ء اتوار کے دن۔۔۔ مظفر آباد میں اس کتاب کی تقریب افتتاح کا اجتماع ہے۔۔۔ اجتماع میں شرکت کے تین درجے ہیں۔۔۔ پہلا یہ کہ۔۔۔ اپنا مال اور اپنا وقت لگا کر خود اجتماع میں شریک ہوں۔۔۔ ایسے مواقع زندگی میں روز نہیں آتے۔۔۔
دوسرا درجہ یہ کہ۔۔۔ اجتماع کے اخراجات میں مالی تعاون کریں اور تیسرا درجہ یہ کہ۔۔۔ دل کے مکمل اخلاص کے ساتھ اجتماع کی کامیابی اورقبولیت کی مستقل دعاء اجتماع مکمل ہونے تک کرتے رہیں۔۔۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلّا بِاﷲ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْب
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔۔۔
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا۔۔۔
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
No comments:
Post a Comment