میٹھے کو میٹھی نعمت مبارک
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 667)
اللہ تعالیٰ کے راستے میں… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے… اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے ہاتھوں’’ قتل‘‘ ہونا… دنیا کی سب سے میٹھی اور مزیدار نعمت ہے… بظاہر یہ جتنی خوفناک نظر آتی ہے… حقیقت میں یہ اسی قدر لذیذ ہے… محبوب کے لئے قربان ہونا، محبوب کے لئے قتل ہونا… محبوب کے لئے ذبح ہونا… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم … پیارے اور عزیز بیٹے محمد عثمان ابراہیم کو یہ عظیم نعمت مبارک ہو… وہ میٹھا تھا بالآخر میٹھی نعمت پا گیا …
تھوڑا سا سوچیں کہ… جنت کی حوروں میں کتنی مٹھا س ہو گی…جنت کی نعمتوں میں کتنی مٹھاس ہو گی… مگر اس ساری مٹھاس کو پا کر بھی … اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے کی مٹھاس نہیں بھولے گی… عثمان سفر میں جا رہا تھا… میں اسے رخصت کرنے اپنے دروازے تک نکلا … وہ گلے لگا تو میں نے اس کا بوسہ لیا… تب اس کی محبت بے قابو ہو گئی…وہ خود کو سنبھالے ہوا تھا… مگر پیار بھرے بوسے نے اسے پھر بیٹا بنا دیا … بچہ بنا دیا … اور اس نے مجھ پر بوسوں کی بارش کر دی مگر زور لگا کر اپنے آنسوؤں کو نہ چھلکنے دیا… اس وقت اس کے چہرے پر شہادت کا نور صاف نظر آ رہا تھا… میرا ہر دن دل دھڑکتا تھا کہ آج خبر آئی یا کل آئی… روز اس کی حفاظت کے لئے دعاء کرتا تھا … مگر اس کا جذبہ اور شوق شہادت ایسا غالب آیا کہ… آخری دن دعاؤں کا رخ تکوینی طور پر کسی اورطرف مڑ گیا… اور عثمان فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ الوداع کہہ گیا… ہاں وہ جیت گیا … وہ تو پیدا ہی جیتنے کے لئے ہوا تھا… اس نے پیدا ہونے سے لے کر آخری لمحے تک… شکست کا کبھی منہ ہی نہیں دیکھا…اس نے دنیا میں آنکھ کھولی تو فتح دیکھی… اور اس نے دنیا سے آنکھ بند کی تو فتح ہی دیکھی…
شہادت سے چند لمحے پہلے اس نے کہا… میں نے الحمد للہ دشمن سے اپنا حساب پورا کر لیا ہے … اب مجھے کوئی فکر نہیں…اس نے رات کو دشمن پر ایک کامیاب کاروائی کی… واپس آ رہا تھا کہ … راستے میں زخمی ہو گیا… اس حملے میں وہ شہید بھی ہو سکتا تھا… مگر اہل ایمان پر نام کی نسبت اپنا رنگ جماتی ہے… اس پر تو ماشاء اللہ بہت چھوٹی عمر سے ’’عثمان ‘‘ نام کی سخاوت اور حیاء والی نسبت غالب تھی… گھر سے پیسے لے جا کر غریبوں میں تقسیم کرتا تھا… اپنا کوئی ہم سبق بچہ ضرورتمند ہوتا تو یہ اپنے والدین کے سر پر سوار ہو جاتا کہ اس بچے کی ضرور مدد کرنی ہے… شہادت کے وقت جسمانی تکلیف اور اذیت برداشت کر کے جانا… اور سخت ترین لمحات میں استقامت کا نمونہ بننا یہ بھی ’’عثمانی نسبت ‘‘ کا اثر تھا… وہ زخمی ہوا… جسم کا اکثر خون نکل گیا… مگر نہ اس نے آہ و پکار کی… اور نہ ہی ایک لمحے کے لئے خود کو بے بس بنایا… ایسے حالات ہی میں اکثر مجاہدین گرفتار ہو جاتے ہیں… جسم میں لڑنے کی طاقت باقی نہیں رہتی… اور خون کی کمی کی وجہ سے… دل کا حوصلہ اور دماغ کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے… ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے… کیونکہ انسان بہرحال کمزور ہے… مگر اہل عزیمت اور اہل سعادت کی تو دنیا ہی الگ ہوتی ہے… وہ زخمی بازو کے ساتھ چلتا رہا… اور ایک جگہ پہنچ کر مورچہ سنبھال لیا… اور پھر اس نے جو معرکہ لڑا… شاید ایسے ہی معرکوں کے بارے میں وہ روایت ہے کہ …جنت کی حوریں بے تاب ہو کر… اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آسمان اول پر تشریف لاتی ہیں… اور اپنے دولہے کا یہ آخری معرکہ دیکھتی ہیں… اور اس کے لئے دعاؤں کے ہاتھ پھیلائے رکھتی ہیں…
دنیا کی دلہن لینے کے لئے… اس کے گھر جانا پڑتا ہے… مگر یہاں اتنی پاکیزہ اتنی حسین اور اتنی افضل و اعلیٰ دلہن… خود اپنے دولہے کو لینے کے لئے…جنت سے اُتر آتی ہے… بے شک اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں…بے شک حضرت آقا مدنی ﷺ کے فرامین سچے ہیں… لوگ ہم پر طعنے کستے ہیں کہ… یہ حوروں کے دھوکے دے کر نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں… نہیں ، اللہ کی قسم نہیں… کوئی دھوکہ نہیں…دنیا کی غلاظتوں میں پڑے ہوئے انسان… حوروں کو کیا جانیں … جنت کو کیا جانیں… ان چیزوں کو تو… ’’عثمان ‘‘ جیسے عارف باللہ اولیاء، صدیقین سمجھتے ہیں… جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر پورا یقین رکھتے ہیں…جو رسول اللہ ﷺکی احادیث مبارکہ پر پورا یقین رکھتے ہیں… آج کسی کی انگلی زخمی ہو جائے تو اس کی ہائے ہائے پورا محلہ سنتا ہے … جبکہ یہاں ایک نوخیز ، نوجوان بچہ…اپنے بازو کی ہڈی میں …گولی کھا کر پھر اسی زخم کے ساتھ میلوں سفر کر کے… خون سے خالی جسم کے ساتھ اپنی امی جان سے… کہہ رہا ہے کہ… میرا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا وقت آ چکا ہے… آپ پریشان نہ ہونا بلکہ … اور بیٹوں کو بھی جہاد میں بھیجنا…یہ تبھی ہو سکتا ہے… جب دل کی آنکھیں کھل چکی ہوں… ورنہ مصیبت کے لمحات میں… لوگ یہ وصیت کرتے ہیں کہ میں تو مارا گیا … آپ کسی اور کو اس مصیبت میں نہ بھیجنا… واہ عثمان واہ… واہ اللہ کے شیر واہ…
حضرت بابا فرید کی مجلس میں
حضرت اقدس بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللہ تعالیٰ کے وظائف لکھنے کا سلسلہ جاری ہے…درمیان میں کوئی اور ضروری موضوعات آ گئے جن کی وجہ سے یہ سلسلہ مکمل نہ ہو سکا… حضرت بابا جیؒ کی خاصیت یہ ہے کہ…ان کا قرآن مجید سے تعلق بہت مضبوط اور والہانہ ہے …وہ قرآن مجید کی تلاوت کو…سب اذکار اور معمولات سے افضل قرار دیتے تھے… اور اپنے مریدین کو… زیادہ وظیفے قرآن مجید کی آیات کے تلقین فرماتے تھے… حضرت بابا فریدؒ فرماتے ہیں…
(۱) جو شخص یہ چاہے کہ اس کے اعمال مقبول ہوں تو اس کے لئے یہ آیت ہے
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
(۲) اگر کوئی چاہے کہ دنیا و آخرت میں بھلائی پائے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہے تو یہ آیت پڑھا کرے
رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
(۳) اگر بڑے بڑے کاموں میں صابر( یعنی مضبوط) رہنے کا آرزو مند ہو اور ہر معاملے میں ثابت قدم اور دشمنوں پر ظفریاب رہنا چاہتا ہو تو یہ آیت مجرب ہے
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ
(۴) اور اگر یہ منظور ہو کہ اس کا دل ایمان اور امان کے ساتھ رہے، رحمت الہٰی اس کے شامل ہو … اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو اور وہ با ایمان دنیا سے جائے تو یہ آیت پڑھا کرے
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ
(۵) جو شخص اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں شامل ہونا چاہے وہ یہ آیت کثرت سے پڑھے
رَبَّنَا اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
(۶) جب کسی کو کوئی مہم ( مشکل، حاجت یا اہم معاملہ) درپیش ہو یا کسی کا غلام بھاگ گیا ہو یا وہ نیک اور متقی بیٹے کی خواہش رکھتا ہو تو یہ آیت پڑھا کرے
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَائِ
(۷)جو آدمی چاہے کہ اس کا حشر نیک لوگوں کے ساتھ ہو اور قیامت کے دن اس کو آسانی ہو تو یہ آیت پڑھا کرے
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَیٰ رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ
اس آیت کی فضیلت پر حضرت بابا جی نے ایک واقعہ بھی لکھا ہے
(۸)جب کوئی شخص ظالموں کے ہاتھ سے نجات پانا چاہے تو لازم ہے کہ اس آیت کا ورد کرے
رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّدُنکَ وَلِیًّا وَّاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّدُنکَ نَصِیْرًا( راحت القلوب ص۱۴۹)
ابھی حضرت بابا جی کے ’’وظائف‘‘ باقی ہیں جو آئندہ آتے رہیں گے ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
الله رب العزت ہمیں بھی اپنے محبوب بندوں اور بندیوں کی صف میں شامل فرما اپنے دین پر ثابت قدم رکھے آمین💧
ReplyDelete