Sunday, June 16, 2024

اللہ تعالیٰ کا راستہ

رنگ و نور سعدی کے قلم سے(691)

اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کے لئے عظیم بشارت… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے… ( یعنی حیرت انگیز خوشی والا معاملہ ہے کہ ) اس کے لئے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے…اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے تو اس کے لئے خیر ہو گئی اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبرکرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے خیر ہو گئی … ( صحیح مسلم )

دین کی محنت میں مشغول شکر گذاروں… اور قید خانوں میں بند صبر شعاروں کو مبارکباد… اور قلبی سلام

قسمت کیا ہر ایک کو قسام ازل نے

ایک تمثیلی کہانی ہے :

دو پرندے ’’زیتون ‘‘ کے درخت پر بیٹھے تھے … ایک پرندے نے شکوہ سنایا … ہم پرندوں کی بھی کیا زندگی ہے؟ … بڑی محنت سے کسی جگہ گھونسلا بناتے ہیں… پھر تیز آندھی اور ہوا آتی ہے اور ہمارا گھونسلا گر جاتا ہے … اور ہمیں پھر کوئی نیا ٹھکانہ ڈھونڈنا اور بنانا پڑتا ہے… دوسرے پرندے نے کہا ! شکوہ نہ کرو… ہم پرندوں کو ہمارے مالک نے اسی فطرت پر بنایا ہے کہ… ہم ہمیشہ ہجرت، نقل مکانی اور محنت میں رہیں… یہی ہماری کامیابی ہے، اسی میں ہمارے لئے ہر طرح کی خیر ہے… اسی میں ہماری نسل کا پھیلاؤ ہے … مگر پہلا پرندہ… بغاوت پر اُترا ہوا تھا کہنے لگا… نہیں یہ کوئی زندگی نہیں… ایک جگہ گھر اور ٹھکانہ ہونا چاہیے… جہاں سے ہمیں کوئی نہ ہٹا سکے… ہمیں روز روز کے دھکے نہ کھانے پڑیں … یہ دیکھو! زیتون کا یہ درخت سو سال سے ایک جگہ کھڑا ہے… جبکہ ہم گھر بدل بدل کر اور بنا بنا کر تھک ہار جاتے ہیں… دوسرے پرندے نے سمجھایا کہ… ناشکری نہ کرو…فطرت سے بغاوت نہ کرو… درخت کی قسمت یہی ہے… جبکہ ہماری قسمت میں سیاحت ہے، محنت ہے اور دور دور کی پروازیں ہیں… فطرت سے لڑو گے تو مارے جاؤ گے …اسی دوران تیز ہوا چلنے لگی… دوسرے پرندے نے کہا کہ… امر ربی آ گیا ہے کہ ہم کوچ کریں… لو میں تو گیا… مگر پہلا پرندہ … آج بغاوت پر اُترا ہوا تھا… وہ فطرت کو نعوذ باللہ ظلم سمجھ رہا تھا اس نے اُڑنے سے انکار کر دیا…اور پھر… ہوائیں طوفان میں بدل گئیں اور وہ مارا گیا… اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کا عزم رکھنے والے… فطرت کو سمجھیں … دین کے راستے کی آزمائشیں اور قربانیاں… یہ اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں…ایک بڑے امام حضرت محمد بن شبرمہ فرماتے تھے… آزمائش کے دن ایسے لذیذ ہوتے ہیں جیسے کہ سخت گرمی کے موسم میں بادل… مگر افسوس کہ یہ بادل جلد چھٹ جاتے ہیں… ہاں جن کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا یقین اور شوق ہو… وہ جانتے ہیں کہ… دین کی خاطر آزمائش کے دنوں کی کیا قیمت ہے…مگر جو دنیا کو مقصد بنا چکے ہوں وہ تو… ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہونے کو بھی عذاب سمجھتے ہیں…

دیکھیں امام ابن قیم ؒ گرج رہے ہیں…

اے ہیجڑوں کا حوصلہ رکھنے والے انسان … کہاں تو اور کہاں اللہ تعالیٰ کا راستہ؟ …یہ تو وہ راستہ ہے جس میں آدم علیہ السلام نے سخت تھکاوٹ برداشت کی … اس میں نوح علیہ السلام کے نالے بلند ہوئے… اسی میں خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا… اسی میں اسماعیل علیہ السلام ذبح ہونے کے لئے لٹائے گئے … اسی میں یوسف علیہ السلام ادنیٰ پونجی پر بیچے گئے اور کئی سال جیل میں رہے… اسی میں زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا… اسی میں سید الحصور یحییٰ علیہ السلام ذبح کئے گئے … اسی میں ایوب علیہ السلام نے سخت تکلیف کا گھونٹ پیا… اسی میں داؤد علیہ السلام کی آہیں بلند ہوئیں… اسی میں عیسیٰ علیہ السلام کو جنگلوں میں نکلنا پڑا … اسی میں حضرت محمد ﷺ نے ہر تکلیف اور اذیت اُٹھائی…
غلط اور شر انگیز فیصلہ

سری لنکا کی حکومت… شاید سخت بوکھلا چکی ہے… اب دہشت گردی کے بہانے … مسلمان خواتین کے پردے پر پابندی لگائی جا رہی ہے… حجاب، نقاب، داڑھی، پگڑی اور اسلامی لباس کا… ان معاملات سے کیا تعلق؟ … کچھ عرصہ پہلے اسی سری لنکا میں’’ بدھ مت‘‘ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے… پورے ملک میں مسلمانوں پر… اور ان کی مساجد پر حملے کئے … بہت سے مسلمان شہید ہوئے… اور بہت سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے … تب ’’بدھ مت‘‘ کے کسی شعار پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی… جنہوں نے حملہ کرنا ہووہ کر لیتے ہیں…ان کو کسی برقعے یا حجاب کی ضرورت نہیں پڑتی… مگر دنیا میں جہاں بھی عالم کفر کو موقع ملتا ہے وہ… بعض واقعات کو آڑ بنا کر… اسلامی شعائر کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں… اسلام اور مسلمانوں کے خلاف … ایسے ہی ظالمانہ اقدامات …امت مسلمہ میں بے  چینی کا باعث بنتے ہیں… ایک طرف ہر چیز کی آزادی… اور دوسری طرف دین پر بھی پابندی… اس سے امن کا مقصد تو حاصل نہیں ہو سکتا…البتہ جنگ ضرور پھیل جاتی ہے…

طوطے کی موت
ایک بزرگ …ایک شہر میں نوجوانوں کو جمع کر کے… انہیں ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کی دعوت دیتے تھے…انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا … چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی… لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ… اللہ تعالیٰ جس کو بھی… اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے…اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے…ایک نوجوان … جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر… کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا… ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا… اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا… طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا… بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے… اور جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے… دن رات ’’ لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ ‘‘ کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا… وہ سبق کے دوران جب’’ لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ ‘‘ پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے… ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطاساتھ نہیں تھا… شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے… بتایا کہ کل رات ایک بلی نے اسے کھا لیا… یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے… شاگردوں نے تعزیت بھی کی… تسلی بھی دی … مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں … ایک شاگرد نے کہا… حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا… بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا… میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ… وہ طوطا دن رات ’’ لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ ‘‘ پڑھتا تھا… جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ … طوطا… لا الہ الا اللہ پڑھے گا… مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا… اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا… اور اس نے ایک بار بھی ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ نہیں کہا… وجہ یہ کہ… اس نے ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا … مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا… اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ… کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے… موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے…اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں…اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو… ہم یہاں دن رات ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی ضربیں لگاتے ہیں… مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیے کہ… یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے … ہمارا عقیدہ بن جائے… یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے… اور اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم… موت کے وقت… جبکہ… اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے… ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں… یہی تو جنت کی چابی… اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے… بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ… یا اللہ یہ کلمہ ہمیں… طوطے کی طرح نہیں… حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح… دل میں نصیب فرما دیجئے…

اللہ تعالیٰ کے راستے کی آزمائشوں کا ایک فائدہ … بلکہ عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ… ان آزمائشوں کی برکت سے … کلمہ طیبہ دل میں اُتر جاتا ہے … ذرا مکہ کے تپتے صحراؤں …اور بدر و اُحد کے میدانوں… اور تبوک وحدیبیہ کے سفر کو یاد کریں…
مقابلے کے لئے تیار ہو جائیں
امام التابعین حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو… اپنی مخلوق کے لئے مقابلے کی دوڑ کا میدان بنایا ہے … اس میں وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے … ایک دوسرے سے سبقت کرتے ہیں… پس کچھ لوگ خوب سبقت کرتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں… اور کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں…

آئیے اس سال رمضان المبارک … اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں… ایسا مقابلہ کریں کہ… اللہ تعالیٰ کو پیار آ جائے… ہر کسی کا عمل بہت مبارک… مگر جو رمضان المبارک بھی… دینی آزمائش کے ساتھ گذاریں گے… اُن کا مقام کیا ہو گا؟

اللہ تعالیٰ سے عافیت ، ہمت،صبر… اور توفیق کا سوال ہے…
اللہ کرے … رمضان المبارک سے پہلے ہی… سب رفقاء کرام رہا ہو جائیں… اگر بعض کو رمضان المبارک بھی…قید و بند میں نصیب ہو تو… باقی تمام ساتھی ان کے گھروں کا… ایمان و حیاء کے ساتھ مکمل خیال رکھیں…
اونچا رابطہ

ایک خاوند نے اپنی بیوی پر ہاتھ اُٹھایا… اور چہرے پر زور دار تھپڑ مارا… اول تو مرد کو زیب نہیں دیتا کہ…اپنی شریک حیات پر ہاتھ اُٹھائے… اور پھر چہرے پر مارنا تو بہت ہی … بری اور قابل نفرت بات ہے…وہ اللہ کی بندی اس ظلم پر لرز گئی… اس نے کانپتی آواز میں کہا … آپ نے جو ظلم ڈھایا ہے میں اس کی شکایت لگاؤں گی… خاوند نے کہا… میں تمہیں گھر سے نکلنے ہی نہیں دوں گا … پھر کہاں جاؤ گی شکایت لے کر؟ بیوی نے کہا میں رابطہ کر کے بتا دوں گی … خاوند نے فوراً اس کا موبائل اُٹھایا اور جیب میں ڈال لیا کہ… اب کر لو رابطے؟ … بیوی نے کہا… آپ دیکھنا میں کیسے رابطہ کرتی ہوں… یہ کہہ کر تیزی سے باتھ روم میں گھس گئی… خاوند غصے میں تھا ، سمجھا کہ باتھ روم میں کوئی فون چھپا رکھا ہو گا… یا کھڑکی سے کود کر باہر نہ چلی جائے… مگر تھوڑی دیر میں بیوی باہر نکل آئی… اس نے وضوء کر لیا تھا… کہنے لگی… اونچے رابطے کا انتظام ہو گیا ہے میں شکایت لگانے جا رہی ہوں … یہ کہہ کر مصلے پر چڑھ گئی اور نماز شروع کر دی … اب خاوند پریشان ہوا کہ… یہ تو مالک الملک سے شکایت لگانے کھڑی ہو گئی… بیوی نے لمبا سجدہ کیا… نماز کے بعد ہاتھ پھیلا کر دعاء مانگنے لگی تو خاوند نے آ کر کہا… سجدے کی بددُعاء اور شکایت کافی نہیں ہے کہ… اب ہاتھ اُٹھا کر بھی مانگ رہی ہو… بیوی نے کہا… نہیں ظلم بہت بڑا ہے شکایت بھی لمبی چلے گی…خاوند نے کہا ! بس کرو معاف کر دو… مجھ پر شیطان نے حملہ کیا تھا… بیوی نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا… اسی لئے سرتاج… میں شیطان سے حفاظت ہی کی دعاء…سجدے میں اور اب مانگ رہی ہوں … آپ کے لئے میں کیسے بددعاء کر سکتی ہوں … تب خاوند نے آئندہ ظلم سے توبہ کی اور دونوں میں صلح ہو گئی… ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں… اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ کی توفیق سے… اللہ تعالیٰ کے دین کا کام کر رہے ہیں… اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہیں…بس اسی جرم میں… ہمارے رفقاء کرام کو ستایا جا رہا ہے… اُن کی اللہ والی ماؤں،بیویوں، بہنوں …اور بیٹیوں نے… اونچا رابطہ جوڑا ہوا ہے… ابھی تک…بددعاء شروع نہیں ہوئی … پہلے جنہوں نے ستایا تھا… اُن کا حال سب کے سامنے ہے… کسی جمعہ کے دن …عصر کے بعد اگر … برداشت کا بندھن ٹوٹ گیا… اور شکایت کے آنسو بہہ نکلے تو… ظلم کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ … اے حکمرانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللٰہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭


 

No comments:

Post a Comment