بزدلی سے نجات کا ایک نسخہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ ٦٣٢)
اللہ تعالیٰ نے ‘‘تلواروں کے سائے تلے ’’ جنت’’ رکھی ہے… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اعلموا ان الجنۃ تحت ظلال السیوف
خوب یقین کر لو کہ بلاشبہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے( بخاری)
اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار ‘‘سیف اللہ’’منتخب فرمایا… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نعم عبد اللہ ھذا سیف من سیوف اللہ
خالد اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے اور اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں( ترمذی)
غور فرمائیں … جہادی تلواروں کے سائے میں ‘‘جنت ’’ ہے… اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… آئیے ! اس تلوار کا سایہ ڈھونڈیں… آئیے!اس تلوار سے نسبت جوڑیں … آئیے!اس تلوار سے رشتہ بنائیں تاکہ جنت ملے، شجاعت ملے، اطمینان ملے، کامیابی ملے، سکون ملے… حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… اللہ تعالیٰ ہی اس تلوار کو چلانے والا ہے… جب تلوار اللہ تعالیٰ کی ہے توچلائے گا بھی اللہ تعالیٰ… پھر یہ تلوار ایسی چلی کہ جنت کا سایہ دور دور تک پھیل گیا… وہ علاقے جہاں جہنم ہی جہنم تھی… ایک بھی ‘‘جنتی ’’ نہیں… ہر طرف جہنم والا عقیدہ… جہنم والے اعمال اور جہنمی مخلوق… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ان علاقوں کی طرف بڑھے تو ان علاقوں پر جنت کی بہار آ گئی… یہ عراق، یہ دمشق، یہ فلسطین، یہ ملک شام… یہ سب جنت کی خوشبو کو ترس رہے تھے… ہر طرف کفر تھا اور ظلم… جہالت تھی اور تاریکی… تہذیب کے نام پر بے حیائی تھی اور نفس پرستی… اللہ تعالیٰ کی تلوار حضرت سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے… جہاد فرمایا… تلوار چلی تو یہ علاقے جنت کی خوشبو سے جھومنے لگے… ان علاقوں میں صدیقین ، شہداء ، صالحین پیدا ہونے لگے… ہر طرف اذان گونجنے لگی… اور کفر کی جگہ ایمان کی بہار آ گئی… کسی نے خوب تحقیق کی ہے کہ … دنیا میں بڑے بڑے فاتحین گذرے ہیں… مگر ان میں سے کسی کی فتوحات بھی اتنی پائیدار نہیں جتنی کہ… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ہیں… منگولوں اور تاتاریوں نے آدھی دنیا پر قبضہ کیا… مگر پھر ان کی سلطنت ایک چھوٹے سے ملک تک سمٹ گئی… یہی حال… انگریزوں ، فرنچوں اور دیگر فاتحین کا ہوا… مگر حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو علاقے فتح فرمائے وہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں … مسلمانوں کے پاس ہی ہیں… یہ تحقیق پڑھی تو ذہن میں یہ نکتہ آ گیا کہ… جنت تلواروں کے سائے تلے ہے… جب عام جہادی تلواروں کا یہ رتبہ اور مقام ہے تو… اللہ تعالیٰ کی تلوار کا کیا مقام ہو گا… یہ تلوار جہاں بھی چمکی ، جہاں بھی برسی، جہاں بھی چلی اس کے نیچے جنت آباد ہوتی چلی گئی… اور آج تک الحمد للہ آباد ہے… کیونکہ ان علاقوں میں ایمان بھی موجود ہے اور اعمال صالحہ بھی… بے شک جہاد کے برابر کوئی عمل نہیں، کوئی عمل نہیں… ایک عابد آخر کتنی عبادت کر سکتا ہے؟ … ایک صدقہ دینے والا آخر کتنا صدقہ دے سکتا ہے؟ … لیکن ایک مجاہد ، ایک فاتح اور ایک غازی تو صدیوں کے اعمال کو اپنے نامہ اعمال میں جوڑ لیتا ہے… جن علاقوں کو وہ فتح کرتا ہے اور ان میں ایمان کے چراغ روشن کرتا ہے… ان علاقوں کے تمام اہل ایمان کے… ایمان اور اعمال میں اس کا حصہ شامل ہوتا ہے…
بے شک دنیا کے سارے کلکولیٹر اور سارے حساب دان مل کر بھی… ایک مجاہد کے ایک دن کے اعمال کا حساب نہیں لگا سکتے… حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ چونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… اور تلوار کے سائے تلے جنت ہوتی ہے تو… یقینی بات ہے کہ… ان کے تذکرے میں عجیب سکون محسوس ہوتا ہے… ان کے بارے میں جتنا پڑھا جائے پیاس نہیں بجھتی… بلکہ ان کے حالات ، واقعات اور اقوال پڑھ کر مزید شوق بڑھتا چلا جاتا ہے… اور دل ایک عجیب سی پاکیزگی اور قوت محسوس کرتا ہے… ویسے بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بڑے صاحب کرامت تھے… علامہ ابن حجر ؒ الاصابہ میں لکھتے ہیں:
اتی خالد بن الولید رجل معہ زق خمر فقال اللھم اجعلہ عسلا فصار عسلا
یعنی ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس کے پاس شراب سے بھراہوا مشکیزہ تھا… حضرت خالد رضی اللہ نے دعاء فرمائی… یا اللہ! اسے شہد بنا دیجئے… تو وہ شہد بن گیا…
اسی طرح مستند حوالوں سے یہ بھی مذکور ہے کہ… آپ نے ایک بار خطرناک زہر اپنی ہتھیلی میں ڈالا اور بسم اللہ پڑھ کر اسے پی گئے… اس مہلک زہر نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا… دراصل جب آپ عجم کی طرف جہاد کے لئے بڑھے اور آپ کے رعب اور ہیبت نے ملکوں اور لشکروں کو لرزا کر رکھ دیا تو… ہر طرف آپ کو قتل اور شہید کرنے کی سازشیں زور پکڑ گئیں… تب کسی نے مشورہ دیا کہ… آپ کھانے میں بہت احتیاط فرمائیں کیونکہ دشمن آپ کو زہر دینا چاہتے ہیں…فرمایا:کیسا زہر؟ وہ میرے پاس لاؤ… زہر لایا گیا تو سارا اپنی ہتھیلی پر اُنڈیل دیا اور ‘‘ بسم اللہ’’ پڑھ کر پی گئے… بے شک اللہ تعالیٰ کی سچی تلوار میں یہ تاثیر تھی کہ ناپاک شراب پر دعاء ڈالے تو اسے… پاکیزہ شہد بنا دے… اور مہلک زہر پر توجہ ڈالے تو اسے نفع مند دواء بنا دے… آج ہمارے قلوب میں بھی ‘‘حُبِّ دنیا’’ کا زہر اور بزدلی کی ناپاکی بھری ہوئی ہے… بے شک ‘‘بزدلی’’شراب سے زیادہ نجس اور ناپاک چیز ہے… شراب کا اثر تھوڑی دیر رہتا ہے اور وہ انسان کو ذلت میں ڈالتی ہے… جبکہ بزدلی کا اثر تو انسان کو نعوذ باللہ مستقل ذلت اور غلامی میں دھکیل دیتا ہے… آج جہاد کے خلاف جتنے فتنے اور جتنی آوازیں ہیں ان سب کی اصل بنیاد… بزدلی اور حُبِّ دنیا ہے… بس موت نہ آ جائے…ہمیں کوئی مار نہ ڈالے… ہم کمزور ہیں… ہم نہیں لڑ سکتے … ہمیں زیادہ جینا ہے… وغیرہ وغیرہ… اصل بیماری یہی ہے… باقی دلائل تو پھر بزدلی خود گھڑوا لیتی ہے… مثال کے طور پر دیکھ لیں … آج کل جہاد کے بارے میں جو فتوے لائے جاتے ہیں… کچھ منفی اور کچھ مثبت… کیا ان فتووں میں… مسلمانوں کے لئے عملی جہاد کا کوئی ایک راستہ بھی موجود ہے؟ … اگر صورتحال یہ ہوتی کہ یہ لوگ جہاد کی مکمل تیاری کر کے… شہادت کے شوق میں مچل رہے تھے … تلواریں اُن کے ہاتھوں میں ہوتیں… گھوڑے اُن کے نیچے ہانپ رہے ہوتے اور پھر یہ بتاتے کہ… ہم تو تیار ہیں مگر فلاں فلاں شرعی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں… اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شرط جلد پوری ہو تاکہ ہم جنت کے میدانوں… یعنی جہاد کے محاذوں کی طرف کوچ کر جائیں… تب اُن کی باتوں میں وزن ہوتا… مگر نہ جہاد کا ارادہ، نہ جہاد کی نیت، نہ کبھی خواب و خیال میں جہاد کرنے کی آرزو… نہ جہاد کی تیاری… پھر کیسے فتوے اور کون سی شرطیں؟ کاش یہ کوئی ایک محاذ تو مسلمانوں کو بتا دیتے کہ… وہاں جہاد ہو رہا ہے… ہم بھی جا رہے ہیں اور تم بھی پہنچو… کاش یہ جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ کی کوئی ایک عملی صورت بتا دیتے… کیا صدر سے اجازت لینی ہے؟…ممنون حسین صاحب کس دن جہاد کی اجازت دینے کے لئے تشریف فرما ہوتے ہیں؟ کیا نواز شریف اور زرداری کے حکم سے جہاد ہو گا؟ … یہ دونوں حضرات اگر اپنے کافر دوستوں کی گود میں تشریف فرما ہوں تو جہاد کی اجازت کس سے لی جائے گی؟ جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے… ریاست سے کون سی ریاست مراد ہے… ریاست میں سے کس کا قول معتبر ہو گا؟ … فیصلے کا اختیار کس کو ہو گا؟ کیا جہاد کے لئے باقاعدہ ملازم ہونا بھی شرط ہو گا؟ … ملازمت کے بغیر کوئی مسلمان یہ فریضہ پورا کرنا چاہے تو کس طرح کرے گا؟ … کسی سوال کا جواب نہیں… بس مقصد ایک ہی ہے کہ جہاد نہ کرو… کیا یہ اللہ تعالیٰ کے عمومی عذاب کو دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے؟ … جہاد بند ہوتا ہے تو… اللہ تعالیٰ کاعمومی عذاب آتا ہے… مسلمانوں پر ذلت مسلط ہوتی ہے اور زمین گناہ اورفساد سے بھر جاتی ہے… اپنے دل سے بزدلی دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ… ہم حضرت سیف اللہ خالد رضی اللہ عنہ کی علمی اور روحانی صحبت حاصل کریں… اُن کے حالات پڑھیں، اُن کے واقعات پڑھیں… وہ ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی تلوار بن کر خون اور زخموں میں ڈوبے رہے… ممکن ہے اُن کی برکت سے ہمیں بھی یہ شوق اور کیفیت نصیب ہو جائے… وہ چونکہ ‘‘سراپا جہاد’’تھے ‘‘مجسم جہاد’’تھے… ‘‘مکمل جہاد’’ تھے…‘‘اصلی جہاد’’ تھے… اس لئے اُن کے اقوال میں بھی دعوت جہاد ہے… اور اُن کے اعمال میں بھی دعوت جہاد ہے…حتی کہ جب وہ اس دنیا سے کوچ فرمانے لگے… تب بھی اُن کی ساری فکر جہاد اور دعوت جہاد پر مرکوز تھی… چنانچہ اپنا سارا سامان اور اپنی ساری جائیداد جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف فرما دی… یہ وقف وہ پہلے ہی کر چکے تھے… وفات کے قریب پھر دوبارہ اس کی یاد دہانی کرائی… اور پھر دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ… جہاد کیوں نہیں کرتے ہو؟ … کیا موت سے ڈرتے ہو؟… دیکھو! جہاد میں موت نہیں ہے… میرے جسم کو دیکھو… ایک بالشت جگہ بھی جہادی زخموں سے محفوظ نہیں ہے… پورا جسم چھلنی چھلنی ہے… موت جہاں بھی مجھے نظر آئی میں اس پر جھپٹا… اور ایسے معرکوں میں کودا جہاں سے بچنے کا تصور بھی محال تھا… مگر دیکھو! مجھے وہاں موت نہیں آئی… میں اپنے بستر پر وفات پا رہا ہوں… شہادت کی اس حسرت کا اظہار فرما کر… زندگی کے آخری لمحات کو بھی دعوت جہاد بنا دیا… حالانکہ اُن کی وفات کئی اعتبار سے شہادت سے افضل تھی… اور وہ ’’شہداء ’’ سے زیادہ بلند مقام پر تھے… اور وہ اللہ تعالیٰ کی تلوارتھے… اس تلوار کو توڑنا یا موڑنا دنیا میں کسی کے بس میں نہیں تھا… الحمد للہ ماہنامہ ’’المرابطون ’’… حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر اپنا خصوصی شمارہ تیار کر رہا ہے… بندہ کو بھی اس میں ایک مفصل مضمون… ‘‘اللہ کی تلوار’’… کے عنوان سے لکھنے کی سعادت ملی ہے… اس رسالے کو حاصل کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں… اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو جہاد میں دیکھنا پسند فرماتے ہیں…اللہ تعالیٰ کی جہادکے ساتھ محبت ایسی ہے کہ… اس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو… اپنی تلوار تک بنا لیتے ہیں… کتنے خوش نصیب ہیں وہ بہادر جو… اللہ تعالیٰ کی تلوار بن جاتے ہیں… کہاں بزدلی کی ناپاک غلامانہ زندگی… اور کہاں اللہ تعالیٰ کی چمکتی اور برستی تلواریں… یا اللہ! ہم پر بھی فضل فرما… بزدلی سے مکمل نجات عطاء فرما… ’’حُبِّ دنیا کی ناپاکی سے حفاظت فرما… اور ہمیں اپنے فضل سے… ‘‘سیف اللّٰہی’’ نسبت عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭
Masha Allah best job Allah will bless u more and more
ReplyDelete