مُعْطِی بھی وہی… رزَّاق بھی وہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 436)
اﷲ تعالیٰ دنیا کی محبت، دنیا کے فتنے اور دنیا کی تنگی سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… آمین…
(۱) دنیا کی محبت بھی خطرناک… دل کو مُردہ کرنے والی
(۲) دنیا کا فتنہ بھی خطرناک… دل کو غافل کرنے والا
(۳) دنیا کی تنگی بھی خطرناک… دل کو لوگوں کا محتاج بنانے والی…
ایک قصہ
ایک نیک اور مالدار شخص نے اپنا قصہ لکھا ہے کہ… ایک دن میرا دل بہت بے چین ہوا… ہر چند کوشش کی کہ دل بہل جائے، پریشانی کا بوجھ اُترے اور بے چینی کم ہو، مگر وہ بڑھتی ہی گئی… بالآخر تنگ آکر باہر نکل گیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا، اسی دوران ایک مسجد کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے… فرض نمازوں میں سے کسی کا وقت نہیں تھا، میں بے ساختہ مسجد میں داخل ہوا کہ وضو کر کے دو چار رکعت نماز ادا کرتاہوں، ممکن ہے دل کو راحت ملے… وضو کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو ایک صاحب کو دیکھا… خوب رو رو کر گڑ گڑا کر دعاء مانگ رہے ہیں اور کافی بے قرار ہیں… غور سے ان کی دعاء سنی تو قرضہ اتارنے کی فریاد میں تھے… اُن کو سلام کیا، مصافحہ ہوا، قرضہ کا پوچھا… بتانے لگے کہ آج ادا کرنے کی آخری تاریخ ہے اپنے مالک سے مانگ رہا ہوں… اُن کاقرضہ چند ہزار روپے کا تھا وہ میں نے جیب سے نکال کر دے دیئے… ان کی آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے…اور میرے دل کی بے چینی سکون میں تبدیل ہو گئی… میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر پیش کیا کہ آئندہ جب ضرورت ہو مجھے فون کر لیں… یہ میرا پتا ہے اور یہ میرا فون نمبر… انہوں نے بغیر دیکھے کارڈ واپس کر دیا اور فرمایا… نہ جناب! یہ نہیں… میرے پاس اُن کا پتا موجود ہے جنہوں نے آج آپ کو بھیجا ہے… میں کسی اور کا پتا جیب میں رکھ کر اُن کو ناراض نہیں کر سکتا…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم
تھوڑا سا غور فرمائیں
اللہ تعالیٰ ہی ہمارے اور تمام جہان کے رب ہیں… یعنی پالنے والے ہیں… وہی سب کے رزّاق ہیں، وہی معطی ہیں یعنی عطاء فرمانے والے… ہم ماں کے پیٹ میں تھے تواللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم چلنے پھرنے سے معذور معصوم بچے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم نے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے… مگرہم یہ سب کچھ کتنا جلدی بھول جاتے ہیں… کوئی ہمیں کچھ مال دے توہم اس کا نام پتا بہت احتیاط سے محفوظ کرلیتے ہیں… اور اپنی کئی توقعات اُس سے وابستہ کر لیتے ہیں… ہمارادل بھکاری کے پیالے کی طرح دنیا داروں کے سامنے منہ کھولے رہتا ہے کہ فلاں ہمیں یہ دے اور فلاںہمیں وہ دے… حالانکہ دنیاکے انسان فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں ہوں گے… اُن کا دل بھی چھوٹا اورہاتھ بھی تنگ… ہم جب کسی سے مانگیں گے تو وہ ہم سے نفرت کرے گا… ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو وہ ہم سے محبت فرمائے گا… ہم جب دنیا والوں سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ ہمیں دیںتو وہ لوگ ہم سے ڈریں گے، ہم سے بھاگیں گے اور ہم سے چھپیں گے… لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ سے امید اور توقع رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا پیار عطاء فرمائے گا اور ہمارے دل کو اپنے اور زیادہ قریب فرمالے گا… جو کہتا ہے یا اللہ! میں صرف آپ کا فقیر… اللہ تعالیٰ اُسے کسی اور کا فقیر اور محتاج نہیں بناتے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دو بچیوں کے جانوروں کو پانی پلایا… پھر؟
ثُمَّ تَوَلّٰی اِلَی الظِّلِّ
پھر پیٹھ پھیر کر ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے… ہاں!جب کسی پر احسان کرو تو پھر اپنا چہرہ بھی اس کی طرف اس امید میں نہ کرو کہ وہ شکریہ ادا کرے، وہ بدلہ دے، وہ دعاء دے بس فوراً اُس سے پیٹھ اور دل پھیر کر اپنے رب کے پاس آبیٹھو:
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر
موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں… یا اللہ! آپ کی طرف سے آنے والی خیر کا فقیر اور محتاج ہوں…
دل جب خالص اللہ تعالیٰ سے جڑا ہو… اور کسی کی طرف خیال نہ ہو تو پھر ایک خیر نہیں ہزاروں خیریں خود چل کر آتی ہیں…
فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ
خیر خود آگئی… کھانا، ٹھکانا، شادی، انصار اور بہترین معاشرہ سب کچھ ایک آن میں مل گیا… اسی لئے تو آج جب سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا یہ الفاظ زبان پر بار بار آرہے ہیں:
معطی بھی وہی، رزاق بھی وہ
بھائیو! اور بہنو!… کسی سے سؤال نہیں، کسی سے توقع اور غرض نہیں، کسی کا پتا اور فون نمبر نہیں… بس ایک اللہ، بس ایک اللہ، بس ایک اللہ…
اَلْمُعْطِی ھُوَاللّٰہ، اَلرَّزَاقُ ھُوَاللّٰہ، اَلرَّبُّ ھُوَاللّٰہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
وہ شخص جس نے مالدار آدمی کا کارڈ واپس کر دیا کتنا عقلمند تھا؟ اُس نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان پردہ آنا گوارہ نہ کیا… جب ضرورت پڑے توجہ کسی مالدار کی طرف چلی جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جائے… یہ کتنی محرومی کی بات ہے… مالدار کا فون کبھی کھلا کبھی بند… جبکہ اللہ تعالیٰ کا رابطہ ہروقت کھلا اور وہ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب… مالدار کا موڈ کبھی ٹھیک کبھی خراب، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمیشہ کھلا:
بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ
مالدار مر گیا تو اب فون ملانے سے کیا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حیٌّ اور قیوم
ارے بھائیو! ایمان والے کو تو حاجت پیش آتی ہی اس لئے ہے کہ وہ بار بار
’’یا ربِّ، یا ربِّ، یا ربِّ‘‘
پکارے… اس کی حاجت پوری ہونے میں بعض اوقات تأخیر اس لئے ہوتی ہے کہ اُس کے نامۂ اعمال میں مزید دعاء اورمزید آہ وزاری لکھی جائے… ورنہ مالک کے خزانوں میں کیا کمی ہے… مگر جب بندہ مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو اچھا لگتا ہے… اور یہ مانگنا اُس بندے کے لئے آخرت کا سرمایہ بن جاتا ہے… ہم کسی مالدار سے مانگیں گے تو ہمارا چہرہ بگڑ جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو ہماراچہرہ روشن ہو جائے گا…
مالدارلوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ آپ سے کہہ دیں گے… جناب! جب ضرورت ہو مجھے بتادیجئے گا… حالانکہ وہ ہماری ہر ضرورت پوری نہیں کر سکتے… اگر ہم خدانخواستہ اُن کو اپنی ضرورت بتانے لگیں تو وہ دو چار بار کے بعد اپنا فون نمبر ہی بدل لیں گے… آخر وہ بھی انسان ہیں، اُن کو اپنے مال سے محبت ہوتی ہے… اُن کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں… اُن سے اور بھی بہت سے لینے والے ہوتے ہیں… توپھر اُن کے ایک جملے سے… ہماری توقعات کا رُخ اللہ ربّ العالمین سے ہٹ کر اُن کی طرف کیوں مُڑ جاتا ہے؟… جبکہ اللہ ربّ العالمین نے ہمیں فرمایا ہے کہ مجھ سے جب چاہو مانگو… میرے خزانے بے شمار ہیں… اور اللہ تعالیٰ جس کو جتنا بھی دیں اُن کے ہاں کمی نہیں آتی… آج سے ایک معمول بنا لیں… ضرورت کے وقت جب ہماری توجہ اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر کسی انسان کی طرف جائے تو ہم فوراً اپنے لئے اور اس انسان کے لئے استغفار شروع کردیں…
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ
یااللہ! میری بھی مغفرت فرما،اس کی بھی مغفرت فرما… یا اللہ! مجھے بھی معاف فرما اور اُسے بھی معاف فرما… ان شاء اللہ اس عمل کی برکت سے ہم ’’ اِشراف‘‘ کے گناہ سے بچ جائیں گے… مالدار بے چارے تو مصیبت میں ہوتے ہیں وہ کسی کو دس بار دیں مگرگیارہویں بار نہ دے سکیں تو سامنے والا اُن سے ناراض ہوجاتا ہے… اُن کو بددعائیں دیتا ہے… اُن کے دس بار دیئے ہوئے کو بھول کر اُن سے نفرت کرنے لگتاہے کیونکہ’’حبّ دنیا‘‘ نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے… ایسے اندھیرے ماحول میں ہم یہ روشنی پالیں کہ جو ہم پر احسان کرے ہم اُس کے لئے دعاء کریں، آئندہ اُس سے مزید کی توقع نہ رکھیں اور اگر دل میں توقع آئے تو ہم اُس کے لئے استغفار کا ہدیہ بھیجیں یوں ہم اُسے دینے والے بن جائیں گے… اور اللہ تعالیٰ کو اوپر کا ہاتھ… یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ پسند ہے…
حضرت علی رضی اللہ عنہ… زاہدوں کے امام ہیں، آج اُن کے کئی مبارک فرامین نقل کرنے تھے مگر کالم کی جگہ مختصر ہے تو بس ایک ہی فرمان پر اکتفا کرتے ہیں… اللہ کرے وہ میرے اور آپ سب کے دل میں اُتر جائے…
حضرت ہجویریؒ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:
ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! مجھے کوئی وصیت کیجئے، آپؓ نے فرمایا:
تم اپنے اہل و اولاد میں مشغول ہونے کو(یعنی ان کی خاطر دنیا جمع کرنے کو) اپنا سب سے بڑا اور اہم کام نہ بناؤ… کیونکہ اگر تمہارے اہل و اولاد اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں مشغول ہونا اور ان کی فکر کرنا تمہارے لئے کسی بھی طرح درست نہیں… (کشف المحجوب ص ۱۱۳)
ایک جامع نصاب
’’حبّ دنیا‘‘ سے حفاظت کا موضوع بڑا اہم اور بہت مفصل ہے… اوراسے بار بار دُھرانے کی ضرورت ہے… کیونکہ جن لوگوں کے دل میں آخرت کی فکر ہوتی ہے انہیں پر’’حبّ دنیا‘‘ کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… حضرت ابو سلیمان الدارانیؒ فرماتے ہیں:
’’جب آخرت دل میں ہو تو دنیا وہاں حملہ آور ہوتی ہے تاکہ آخرت کو دل سے نکال دے… لیکن جب دنیا دل میں ہو تو آخرت اُس پرحملہ آور نہیں ہوتی… کیونکہ دنیا کمینی ہے اور آخرت معزز ہے…‘‘
حبّ دنیا کا مکمل موضوع کسی ایک کالم میں نہیں آسکتا… بس آج ہم سب ایک نصاب یاد کر لیں اور ساری زندگی اُس سے غافل نہ ہوں… یہ نصاب ان شاء اللہ ہمیں دنیا کی محبت میں اندھا ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے
(۱) حبّ دنیا سے حفاظت کی ہمیشہ دعاء بہت عاجزی کے ساتھ مانگنے کا معمول رہے
(۲) حرام مال قطعاً نہ کمائیں، نہ لیں
(۳) کسی بھی انسان سے ہرگز سؤال نہ کریں
(۴) کسی بھی انسان سے ’’اِشراف‘‘ نہ رکھیں یعنی دل میں اُس سے کچھ لینے، کچھ ملنے کی لالچ اور توقع نہ ہو
(۵) مال میں اِسراف و تبذیر نہ کریں… نہ حرام پرخرچ کریں، نہ حلال میں ضرورت سے زیادہ لگائیں
(۶) مال میں بخل نہ کریں…خصوصاً زکوٰۃ اور دیگر شرعی حقوق ادا کرنے میں
(۷) امانت اور اجتماعی اموال میں ہرگز خیانت نہ کریں…
بس یہ ہے مختصر اور جامع نصاب… اللہ تعالیٰ میرے لئے بھی اس پرعمل آسان فرمائے اور آپ کے لئے بھی…
دینی،جہادی دعوت دینے والوں کے لئے
اگرلوگوں کی مالی حاجات پوری کرنے سے لوگ ہدایت پر آتے تو اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کو زمین کے خزانے دے کر بھیجتے… وہ لوگوں کو مال دیتے اور لوگ دین پر آجاتے… مگر مال سے دین پر کوئی نہیں آتا… مال سے گمراہی تو پھیلائی جا سکتی ہے، اسلام اور جہاد کو نہیں پھیلایا جا سکتا … آپ لوگوں کو دین کی اور جہاد کی دعوت دیں… یہی آپ کے لئے اور اُن کے لئے کامیابی کا راستہ ہے… اگرآپ ریلیف کے کاموں کو بھی ساتھ لگا کر دعوت چلائیں گے تو…لینے والے مزید کی توقع کریں گے اورجن کو نہیں ملے گا وہ آپ سے اور آپ کی دعوت سے نفرت کرنے لگیں گے… ریلیف اور خدمت خلق کا کام دین کا ایک الگ شعبہ ہے… اُس شعبہ کے بھی بہت فضائل ہیں… مگر وہ ایمان اور جہاد کی دعوت کے برابرنہیں… ایمان اور جہاد کی دعوت بہت بڑی چیز اور بڑی عظیم نعمت ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے یہ دعوت دی اورلوگوں کو جان و مال کی قربانی میں لگایا… جب لوگ دنیا سے کٹ کر جان ومال کی قربانی پر آگئے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی اُن کے قدموں میں ڈال دی… کسی کے ساتھ نیکی کرنا، خدمت خلق کرنا ان کاموں سے کوئی بھی مسلمان کسی کو روکنے کا تصور نہیں کر سکتا… مگر ان کاموں کو ایمان اور جہاد کی برحق دعوت کے ساتھ خلط کرنے سے … وہ عظیم دعوت کمزور ہوتی ہے… اپنی توجہ ایمان، اقامت صلوٰۃ اور جہاد کی دعوت اورعمل پررکھیں… اپنا مال جہادپرلگائیںاور اپنے ذاتی مال سے مسلمانوں کی جو حاجت پوری کر سکتے ہوں وہ کریں… حبّ دنیا کے فتنے سے خود بھی بچیں اور مسلمانوں کو بھی بچنے کی دعوت دیں… دین کی خاطر خود بھی جان و مال کی قربانی دیں اور مسلمانوں کو بھی اس قربانی پرلائیں… بس جلد ہی ہم زمین کے نیچے ایک ایسی جگہ ہوں گے جہاں نہ کوئی تکیہ ہوگا اور نہ کوئی نرم لحاف… ہمارے پاس جو کچھ ہے یہ اُن کا تھا جو مر گئے… پھر ہم مرجائیں گے اور یہ سب کچھ پیچھے والوں کا ہو جائے گا… اور ہم خالی ہاتھ قبرمیں ہوں گے… وہاں جو کچھ کام آسکتا ہو بس اسی کی ہم سب فکر اورمحنت کریں…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
Subhan Allah
ReplyDelete