مقامِ عبرت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 438)
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو تمام روحانی اور جسمانی امراض سے شفاء عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَ الْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُق
بُرے نام سے اللہ تعالیٰ کی پناہ
دنیا اور مال کے لالچی کو حضور اقدسﷺ نے معلوم ہے کیا نام دیا ہے؟
’’عبدالدرھم، عبدالدینار‘‘
درہم اور دینار کا بندہ اور غلام… اور آپﷺ نے اس پر لعنت فرمائی ہے:
لُعِنَ عبدالدینار، لعن عبدالدرھم(ترمذی)
لعنت کے معنیٰ ہیں… اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہونا… دراصل لالچ اورایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے…لالچ ہو گی تو ایمان دل سے روٹھ جائے گا… اور جب دل میں ایمان نہیں ہوگا تو ایسے دل پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہوگی…اسی لئے کہتے ہیں کہ’’حبّ دنیا‘‘ہی وہ چیز ہے جس نے جہنم کو آباد کرنا ہے… حضرت آقا مدنیﷺ نے واضح الفاظ میں فرمادیاکہ!!
الا ان الدنیا ملعونۃ(ترمذی)
خوب اچھی طرح سن لو کہ دنیا ملعون ہے… ہاں دنیا میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو وہ رحمت والا ہے… مگر انسان بہت تیزی سے حبّ دنیا کی طرف گرتا ہے…
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا
ہاں تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو… حالانکہ آخرت بہترین اور باقی رہنے والی ہے… ہم سب کو بہت دعاء اور بہت فکر کرنی چاہئے کہ یہ بُرا لقب ہمارا نہ ہو
عبدالدینار، عبدالدرھم
بلکہ ہمارا نام، ہمارا لقب اور ہمارا مقام یہ ہونا چاہئے
عبداللہ، عبدالرحمن… جی ہاں! ہم دنیا اور مال کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں…
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُک
ہم سب کہہ دیں…
یَا رَبِّ اَنَا عَبْدُک…
یا اللہ میں آپ کا بندہ ہوں، میں آپ کا غلام ہوں… حبّ دنیا سے توبہ کرتا ہوں، حبّ دنیا سے آپ کی پناہ مانگتاہوں…
بے شک دنیاجارہی ہے…بے شک آخرت آرہی ہے… حدیث شریف میں آیا ہے کہ کچھ لوگ دنیا کے بیٹے ہیں… اور کچھ لوگ آخرت کے بیٹے…
کچھ دنیا سے پیار کرتے ہیں… اور کچھ آخرت سے محبت رکھتے ہیں… آج سے سو سال پہلے والے سب لوگ دنیا سے جا چکے… کہاں گئے اُن کے اموال؟ کہاں گئے اُن کے عہدے اور کہاں گئے اُن کے عیش و آرام؟… دنیا کے بیٹے! اپنی ماں سے محروم ہوگئے… جبکہ آخرت کے بیٹے اپنی پیاری ماں کی گود میں جا بسے…
نعوذ باللّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ سے اختلاف
’’حبّ دنیا‘‘ کے نقصانات بے شمار ہیں… ایک بڑا اور خطرناک نقصان یہ کہ دنیا سے محبت رکھنے والے اور اپنے دل میں دنیا کی عظمت رکھنے والے لوگ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو حقیر اور ذلیل قرار دیا… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو مچھر کے پر سے بھی زیادہ بے وقعت قرار دیا… قرآن مجید میں جابجا اُن لوگوں کی مذمت فرمائی جو دنیا کو اپنا مقصود اور مطلوب بناتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار سمجھایا کہ دنیا کی زندگی کے دھوکے میں نہ پڑو، دنیا کی چمک دمک کی طرف نہ دیکھو… کفار کی دنیوی ترقی کی طرف نہ دیکھو… مگرہم ان تمام فرامین کو پس پشت ڈال کر دنیا سے محبت کریں… دنیا کی مالداری اور چمک دمک کو کامیابی سمجھیں… اور بار بار کفار کے حوالے دیں کہ وہ ہم سے کتنا آگے نکل گئے… وہ چاند پر پہنچ گئے، وہ کامیاب ہوگئے… کیا یہ اپنے رب تعالیٰ سے اختلاف کرنا نہیں ہے؟ یادرکھیں! دنیا کی محبت مسلمانوں کے لئے دنیا اور آخرت کی’’ذلت‘‘ ہے… اسی کو حضرت آقا مدنیﷺ نے ’’وھن‘‘ کے نام سے بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ… جب تم’’وھن‘‘ میں مبتلا ہو جاؤ گے… یعنی دنیا کی محبت میں جا پڑو گے اور دنیا کو اپنا مقصود بنالوگے تو ایسے ذلیل ہو جاؤگے کہ دنیا کی دوسری قومیں تم سے کھیلیں گی اور تمہیں نوچ نوچ کر کھائیں گی… مسلمانوں کی عزت اور غلبہ’’جہاد‘‘ میں ہے اور جہاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ’’ حبّ دنیا‘‘ ہے… دنیا کی محبت ایک مسلمان کو جہاد میں نہیں آنے دیتی… کیونکہ جہاد میں ہجرت ہے، مال کی قربانی ہے، جان کی قربانی ہے… اور جب کوئی مسلمان’’حبّ دنیا‘‘ کی پہلی رکاوٹ توڑ کر جہاد میں آجاتا ہے تو پھر’’حبّ دنیا‘‘ کا دوسرا گڑھا منہ پھاڑ دیتا ہے… مال کا شوق، عہدے کا شوق، ناموری اور شہرت کا شوق … تب بہت سے لوگ اس میں جا گرتے ہیں… صحیح حدیث میں وہ افراد جن کے ذریعہ سب سے پہلے جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا ان میں’’شہید‘‘ بھی ہے… جہاد میں جان لٹانے والا شہید… مگر اس کے دل پر دنیا میں بہادرلقب، ناموری اور شہرت کی نیت چھائی ہو گی… وہ بھی ناکام ہو جائے گا… پس جہاد جیسے عظیم فریضے پر آنے کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اور پھر جہاد میں آنے کے بعد اپنے جہاد کی قبولیت کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اسی لئے تو حضرت حکیم الامتؒ کی تحقیق کے مطابق’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ ہی ’’جہاد اکبر‘‘ ہے… کیونکہ اس میں مجاہدہ ہی مجاہدہ ہے… ایک مجاہدے کے بعد دوسرا مجاہدہ… اور ساتھ جان و مال کی قربانی بھی…
مقام عبرت
الحمدللہ آج کے زمانے میں بھی سچے مسلمان موجود ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت موجود رہیں گے…
سچے مسلمان کی ایک بڑی نشانی!!
’’حضرت آقا مدنیﷺ سے محبت رکھنا ہے‘‘
یہ ایمان کی لازمی علامت ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جو حضرت آقا مدنیﷺ کی عزت، حرمت اور ناموس پر اپنی جان کے ٹکڑے کروانا اپنی سعادت سمجھتے ہیں… ایسے سچے مؤمن بھی موجود ہیں جو حضرت محمدﷺ کی محبت میں اپنا سارا مال خرچ کر سکتے ہیں… اور ایسے بھی موجود ہیں کہ خواب میں حضرت آقا مدنیﷺ کی ایک مبارک جھلک دیکھنے کے لئے طرح طرح کے جتن، وظیفے اور عمل کرتے ہیں اور بڑے بڑے صدقات دیتے ہیں… بالاکوٹ کے ایک مقبول اللہ والے بزرگ حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نوراللہ مرقدہ سے ملنے تشریف لائے… اور یہ کہہ کر بلک بلک کررونے لگے کہ حضرت! مجھے حضور اقدسﷺ کی خواب میں زیارت نہیں ہوتی… حضرت نے انہیں یہ درود شریف بتایا
صَلّٰی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّی…
الحمدللہ جمعۃ المبارک کے درود سلام والے’’مقابلہ حسن‘‘ میں شریک کئی افراد نے اطلاع دی ہے کہ انہیں اس مقابلہ کے دوران خواب میں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جنہیں اگر کہا جائے کہ زمانہ سمیٹ کر آپ کو حضور اقدسﷺ کے دور میں لے جایا جائے گا اور آپ صرف ایک نماز رسول اقدسﷺ کی اقتداء میں ادا کر سکیں گے… مگر اس کے بدلے آپ کو اپنا تمام مال دینا ہوگا اور اس نماز کے فوراً بعد موت کو قبول کرنا ہو گا تو وہ فوراً راضی ہو جائیں گے… مگر اب ایک بھیانک منظر دیکھیں… یہ منظر اگر ہمیں یاد رہے تو ہمیں’’حبّ دنیا‘‘ سے انتہائی نفرت ہو جائے… کچھ اشخاص تھے جن کا شمار رسول کریمﷺ کے میزبان قبیلے’’انصار‘‘ میں ہوتا تھا… انصار کے فضائل آپ نے سن رکھے ہوں گے… یہ لوگ دن رات جنت سے بھی زیادہ لذیذ سعادتوں کے قریب تھے… وہ جب چاہتے حضرت آقامدنیﷺ کی صحبت میں حاضر ہوتے… یہ روزآنہ پانچ نمازیں رسول کریمﷺ کی اقتداء میں ادا کرتے تھے… ان کے پاس موقع تھا کہ جب چاہتے رسول اقدسﷺ سے اپنے لئے استغفار اور دعاء کرواتے… ان کی آنکھیں ماہتاب نبوت کو براہ راست دیکھتی تھیں… اور اُن کے کان حضرت آقا مدنیﷺ کی پُراثر شیریں آواز مبارک کو سنتے تھے… یہ لوگ ہر طرح سے ایمانی، دینی اور روحانی نعمتوں کے قریب تھے… وہ چاہتے تو احسان مانتے اور قدر کرتے… مگر’’حبّ دنیا‘‘ کا کینسر اُن کے دلوں کو مسخ کر چکا تھا… ہم جب سورۃ التوبہ کی اُن آیات پر پہنچتے ہیں جہاں ان ظالموں کی ایک بڑی گستاخی کا تذکرہ ہے تو دل خوف سے کانپنے لگتا ہے…
یا اللہ رحم! کیا کوئی انسان مال اور دنیا کی لالچ میں اتنا بھی گر سکتا ہے؟ ہوا یہ کہ حضرت آقا مدنیﷺ کی خدمت اقدس میں کچھ مال آیا… آپﷺ نے وہ تقسیم فرما دیا یہ ظالم افراد بھی ان میں شامل تھے جنہیں مال ملا… مگر وہ جتنا چاہتے تھے اتنا نہ ملا پس اُن کے دل کا حرص اور اندر کا نفاق کالے سانپ کی طرح سر اٹھا کر پھنکارنے لگا…
یہ گندے منہ بنا کر مجلس سے اٹھے اور فوراً اُن افراد کو جمع کرکے جو ان بد نصیبوں کی بات سنتے تھے… غیبت کاناپاک بازارکھول کر بیٹھ گئے… اور غیبت بھی کس کی؟ کہتے ہوئے زبان لرزتی ہے… غیبت اور وہ بھی حضرت آقا مدنیﷺ کی اور الزام یہ کہ مال کی تقسیم میں انصاف نہیں ہوتا… اور نعوذ باللہ حضور اقدسﷺ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق مال تقسیم نہیں فرماتے
استغفراللہ، استغفراللہ، استغفراللہ
اندازہ لگائیں، دنیا کی لالچ اور مال کی محبت انسان کو کتنا ذلیل اور کتنا کمینہ بنادیتی ہے… ایک طرف وہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام تھے… جو حضرت آقا مدنی ﷺ کے حکم پر جان، مال، گھر، وطن سب کچھ قربان کر رہے تھے…اور ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ ہمیں مزید جان و مال لگانے کا موقع ملے… اور دوسری طرف یہ بدنصیب تھے جن کو حضرت آقامدنیﷺ نے خود مال عطاء فرمایا، مگر اُن کے دل کی حرص کم نہ ہوئی… بے شک مال کی محبت اوردنیا کی محبت انسان کو اندھا، بہرہ اور محروم بنا دیتی ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الْوَھْنِ وَالْحِرْمَان
تجربہ کر لیں
انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب’’حبّ دنیا‘‘ کی بیماری کا شکار ہوا… اور حبّ دنیا کی بیماری بہت خطرناک اور بڑی وسیع ہے… نشے میں مدہوش شخص کو یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ نشے میں ہے…
حضرت یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں:
دنیا شیطان کی شراب ہے، پس جو اس شراب کے نشے میں آگیا اسے قبر میں جا کر ہی ہوش آئے گا…
ہاں دوصورتیں ہیں… ایک یہ کہ انسان قبرستان جائے اور مردوں کے پاس بیٹھ کر غور وفکر کرے…یا اُن لوگوں کی صحبت میں جائے جو حبّ دنیا سے دور ہیں…
یہاں چند باتیں ضروری ہیں:
۱۔ ہم خود کو حبّ دنیا سے محفوظ نہ سمجھیں
۲۔ ہم دوسروں کو نہ دیکھیں کہ کون حبّ دنیا کا مریض ہے؟ ایک تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے… اوردوسرا یہ کہ حبّ دنیا ایک چھپی ہوئی بیماری ہے کوئی بھی کسی کے بارے میں درست فیصلہ نہیں دے سکتا… ایک شخص دس روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں’’زاہد‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے… اور دوسرا دو روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں’’حریص‘‘ شمار ہوتا ہے… وجہ یہ ہے کہ اس آدمی کی بھوک اور صحت پندرہ روٹیاں کھانے کی ہے وہ دس کھاتا ہے اورپانچ صدقہ کرتا ہے… اور دل میں حرص نہیں رکھتا… جبکہ دوسرے کی بھوک اور صحت ایک روٹی کی ہے مگر وہ دوسری حرص کی وجہ سے پیٹ میں ٹھونس لیتا ہے… اکثر مالدار حبّ دنیا کے مریض ہوتے ہیں لیکن ایسے مالدار بھی ہیں جن کے پاس بہت مال ہے مگر وہ حبّ دنیا سے محفوظ ہیں… اور ایسے غریب بھی ہیں جن کے پاس دنیا نہیں مگر وہ حبّ دنیا میں دنیا داروں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں… اس لئے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں…
۳۔ کسی بڑے سے بڑے آدمی کے حرام کھانے سے وہ حرام ہمارے لئے حلال نہیں ہوجاتا… عالم، بزرگ، مجاہد ، خطیب … سب انسان ہیں اور سب پر حبّ دنیا کا حملہ ہو سکتا ہے… اب اُن کی حبّ دنیا کو دلیل بنا کر اپنے لئے اس مرض کو جائزسمجھنا ایک بڑا خسارہ ہے… شیطان ایک انسان کو پہلے اس بات پر لاتا ہے کہ فلاں اتنا کھا گیا، فلاں اتنا لوٹ گیا… وہ بار بار مال میں خیانت کے تذکرے زباں پر لاکر پھریہ ترغیب دیتا ہے کہ… جب دوسرے لوگ حرام کھا رہے ہیں تو تم بھی تھوڑا سا کھالو، جب اتنے بڑے لوگ باز نہیں آتے تو تمہیں تقویٰ کی کیا ضرورت ہے؟
ایسے حالات میں خود کو سنبھالنا چاہئے کہ ہر شخص سے خود اس کی اپنی ذات کا سؤال ہوگا… مجھے اپنی حالت درست کرنی چاہئے کیونکہ میں نے اکیلے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے…
۴۔ حبّ دنیا کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ…دل میں مال کی عظمت ایسی آجائے کہ انسان کو صرف مالدار لوگ ہی اچھے لگتے ہوں اور غریبوں مسکینوں سے اسے گھن آتی ہو… یہ وہ مقام ہے جہاں سے آدمی کفر اورنفاق کی طرف گر سکتا ہے… کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کفار کو زیادہ دولت اورعیش دیتے ہیں… اورقرآن مجید کی سورہ الزخرف میں تو یہاں تک سمجھایا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو اور زیادہ مال دیتا یہاں تک کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں تک سونے چاندی کی ہو جاتیں…
۵۔ ہم اس بات کا درد لیکر کہ واقعی ہمارے اندر یہ موذی مرض… ’’حبّ دنیا‘‘ موجود ہے دو رکعت نماز ادا کریں… اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں کہ وہ ہمیں اس مرض سے نجات عطاء فرمائے… خوب رو رو کر دعاء کرنے کے بعد ہم یہ یقین باندھ لیں کہ آج مغرب تک میں نے ضرور مرجانا ہے … پس ساری زندگی خراب کی اب چندگھنٹے پورے اخلاص سے آخرت کی دائمی زندگی کی تیاری کرلوں… پھر مغرب تک کلمہ طیبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور دائیں بائیں کچھ توجہ نہ کریں… مغرب کے وقت موت آگئی تو اچھی ہوگی اور موت نہ آئی تو ہم اپنے دل کو دیکھیں گے کہ کئی بڑے بڑے بوجھ اتر گئے… پہاڑوں جیسے کئی بھاری مسائل حل ہو گئے اور بہت سی پریشانیاں دور ہو گئیں… دراصل دنیا کی محبت ہی وہ بوجھ ہے جو ہمیں مایوس اورویران کر دیتا ہے…
مقامات
کچھ عرصہ پہلے اچانک یہ خیال آیا کہ… رنگ و نور کے مضامین کا عنوان’’میم‘‘ سے شروع کیا جائے… ہمارے محبوب آقا حضرت محمدﷺ کا اسم گرامی’’ میم‘‘ سے شروع ہوتا ہے… ارادہ تھا کہ چالیس مضامین’’میم‘‘ والے عنوان سے آجائیں… مگر الحمدللہ برکت ہو گئی رنگ و نور کی ساتویں جلد میں بھی کئی مضامین’’میم‘‘ والے آگئے… اور اس کے بعد یہ ساٹھواں مضمون بھی… اسی اہتمام کے ساتھ آرہا ہے…یہ بس ایک ذوق تھا اور ایک جنون… اور کچھ بھی نہیں… عشق کا دعویٰ نہیں مگر خواہش بہت ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم
اب ان ساٹھ مضامین کی کتاب تیار ہو رہی ہے… اوریہ اس کا آخری مضمون ہے اورکتاب کا نام ہے’’مقامات‘‘… اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور نافع بنائے…آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭
No comments:
Post a Comment