Tuesday, October 8, 2024


اکتوبر سے

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے 

اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’ عزت‘‘ ’’عطاء‘‘ فرماتے ہیں… اور جسے چاہتے ہیں ’’ذلیل‘‘ بنا دیتے ہیں…اکتوبر کی یہ تاریخیں آتی ہیں تو… 2001؁ء کا اکتوبر یاد آ جاتا ہے… اکتوبر کی سات تاریخ تھی اور رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا تھا کہ…امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا… حملہ بہت شدید تھا… کہا جا رہا تھا کہ دو ہفتوں میں یہ جنگ نمٹ جائے گی…کچھ لوگ ایک مہینہ کہہ رہے تھے… جبکہ محتاط ترین لوگ چھ ماہ کا وقت بتا رہے تھے… ایک غامدی زدہ صحافی نے لکھا کہ …چھ ماہ بعد یہ کہا جائے گا کہ …طالبان نامی ایک مخلوق دنیا میں تھی جو کہ ختم ہو گئی ہے… اب اُس کا کوئی نشان باقی نہیں اور ایک دو سال میں اُس کا نام بھی مٹ جائے گا… مگر آج اُس حملے کو سولہ سال تین دن ہو چکے… جنگ جاری ہے …اگر مزید سولہ سال بھی جاری رہی تو… امریکہ اور اس کے اتحادی یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے… ہم نے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر یہی عرض کیا تھا کہ… امریکہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا… تب کئی اپنے لوگ بھی شک کرتے تھے… مگر رمضان المبارک میں شروع ہونے والے اس معرکے میں… غزوہ بدر کی نسبت پوشیدہ تھی… سولہ سال پہلے افغانستان کے جتنے حصے پر ’’امارت اسلامیہ‘‘ کی حکومت تھی … آج بھی اتنے یا اُس سے کچھ زیادہ حصہ پر ’’امارت اسلامی‘‘ حاکم ہے… اگر کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو … یہی منظر دیکھ کر ’’کلمہ طیبہ‘‘ پڑھ سکتا ہے…بے شک اصل طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے …بے شک اسلام ہی سچا دین ہے… اور بے شک جہاد میں مسلمانوں کے لئے عزت… اور کفار کے لئے ذلت کا راز پوشیدہ ہے…
بش، ابامہ، ٹرمپ
افغانستان پر حملہ امریکی صدر’’ جارج ڈبلیو بش‘‘ نے کیا تھا… وہ جنگجو ذہنیت کا مالک تھا… اس نے افغانستان پر بے تحاشا طاقت استعمال کی … اربوں کھربوں ڈالر کا بارود اور اسلحہ افغانستان میں استعمال ہوا… چالیس سے زائد ممالک نے اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف صف بندی کی … تیل کے کاروبار سے منسلک صدر بش اپنا نام تاریخ میں بطور ایک ’’صلیبی فاتح‘‘ کے لکھوانا چاہتا تھا… وہ کٹر مذہبی عیسائی تھا… اور اس نے خود کو ’’رچرڈ شیر دل‘‘ کا جانشین سمجھ رکھا تھا… مگر سامنے پندھرویں صدی کا صلاح الدین ایوبی ’’ملا محمد عمر‘‘ اس کے سامنے تھا… بش نے افغانستان کی جنگ کو ’’صلیبی لڑائی‘‘ قرار دے کر یورپ کی رگوں میں گرم خون دوڑایا… ٹونی بلیئر نے اس کا بھرپور ساتھ دیا… بش ، ٹونی کی یہ جوڑی… ابامہ اور ٹرمپ سے زیادہ مضبوط اور زیادہ خطرناک تھی… پانچ ایٹمی ممالک اس جوڑی کے ساتھ تھے… اور اس وقت امریکہ تازہ دم تھا… ٹرمپ کے بیانات سن کر کانپنے والے لوگ… بش کے خونخوار وزیروں اور مشیروں کو نہ بھولیں… وہ بھاری بھرکم رچرڈ آرمٹیچ… وہ سازشی ڈک چینی … اور ڈونلڈ رمز فیلڈ جسے امریکی بھی پچھتر گز کا پیچ کس کہتے تھے… رچرڈ آرمٹیچ باقاعدہ غنڈوں کی طرح بولتا اور غراتا تھا… اُسی کے ایک فون اور ایک دھمکی نے…پرویز مشرف کو گھٹنوں پر بٹھا دیا تھا… مگر وہ سب ناکام ہو گئے… مجھے ان لوگوں پر حیرانی ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ… ٹرمپ جیت جائے گا… حالانکہ’’ ٹرمپ‘‘ کے پاس نہ ’’بش‘‘ جیسی طاقت ہے اور نہ تجربہ… بش کے زمانے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار تھی… جبکہ آج وہ صرف چند ہزار ہیں…’’بش‘‘ چونکہ بڑے غرور اور بڑے دھوکے کے ساتھ افغانستان میں اُترا تھا اس لئے… وہ اپنے ماتھے پر شکست کی مہر نہیں لگوانا چاہتا تھا… افغانستان میں جب وہ بری طرح پھنس گیا تو اس نے فوراً عراق پر حملہ کر دیا …تاکہ… اپنی کچھ عزت بچا سکے… اور تاریخ میں یہ لکھوا سکے کہ… اس نے دنیا کو’’ صدام حسین‘‘ سے نجات دلوائی تھی… ہاں! وہ’’ صدام حسین ‘‘کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا … مگر عراق میں وہ اسلام اور جہاد سے ’’دوبارہ‘‘ شکست کھا گیا…اور آج عراق میں بھی لوگ …بش کو نہیں ’’صدام حسین‘‘ کو یاد کرتے ہیں …’’بش‘‘ ذلیل ہو کر چلا گیا… ٹونی بلیئر کو بھی ذلت کے ساتھ جانا پڑا… وہ رچرڈ شیر دل کے کردار کو… عیسائی دنیا میں دوبارہ زندہ نہ کر سکے …
ہاں مسلمانوں میں…نور الدین زنگی… صلاح الدین ایوبی…اور محمود غزنوی کے کردار ضرور زندہ ہوئے…حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کو جب بھی تاریخ میں یاد کیا جائے گا… تو ایک ’’فاتح عالم‘‘ کے طور پر دیکھا جائے گا…ایک شاندار، عظیم ، ناقابل تسخیر مسلمان فاتح…ایسا امیر جس نے تیرہ سال کی شدید جنگ میں…اپنی جماعت کو سنبھالے رکھا…ایک ایسا کمانڈر جس نے…تیرہ سال تک دنیا کے چالیس ممالک کی فوجوں کو میدان میں شکست پر شکست دی…ایک ایسا مدبر جس نے شطرنج سے زیادہ الجھی ہوئی جنگ میں…ہر چال کو بے حال کیا…ایک ایسا پراسرار کردار جو منظر پر نہ ہونے کے باوجود …اپنی وفات کے بعد بھی دشمنوں کو میدان میں نظر آتا رہا…ایک ایسا مومن جس نے ایک ناقابل یقین معرکے میں…اسلام اور امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کیا…
آج اگرچہ ہر طرف دھول ،دھواں اور دھند ہے…مگر یہ غبار جب بیٹھ جائے گا تو…ان شاء اللہ ہر طرف میرے امیر محترم کے چرچے ہوں گے…اہل تحقیق ان کے کارناموں کی تفصیل لکھیں گے…اور دنیا کا ہر بہادر شخص ان کی زندگی اور ان کے جہاد سے…شجاعت اور بہادری کے گر سیکھے گا…بات یہ عرض کر رہا تھا کہ…بش ذلیل ہو کر چلا گیا حضرت امیر المومنین کا تذکرہ آیا تو…نہ قلم قابو میں رہا اور نہ آنکھیں اس لئے بے ساختہ یہ چند سطریں لکھ ڈالیں…دراصل میرے پاس عصر حاضر کے تعلق سے…جو ایمانی سرمایہ ہے وہ اپنے امیر اور اپنے شیخ کی محبت کا ہے…اللہ تعالیٰ مجھے کبھی اس سے محروم نہ فرمائے…مجھے اگر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد نور اللہ مرقدہ کے دروازے کا کتا بھی مل گیا تو اس کا بھی زندگی بھر اکرام و احترام کروں گا…میرے امیر کا اس امت پر بڑا حق ہے…جب ہر طرف غلامی، غلامی کا اندھیرا تھا تو…امیر محترم ہی آزادی کا پیغام بن کر آئے…جب ہر طرف مایوسی تھی تب…امیر محترم کو ہی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے ایک روشن امید بنایا…جب ہر طرف غلامی ، احساس کمتری اور ذلت کا سبق پڑھانے والے لوگ…مسلمانوں میں دندنا رہے تھے…تب جس مرد مومن نے…مسلمانوں کو… ’’وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ‘‘ کی تفسیر سمجھائی وہ حضرت امیر محترم تھے…کہاں غامدیوں کی کیچڑ بھری حقیر زندگی…اور کہاں اللہ کے شیر ملا محمد عمر کی… عزت و سربلندی سے معمور زندگی…حضرت امیر محترم …آپ کی روح کو ہمارا سلام پہنچے…اللہ تعالیٰ آپ کو امت مسلمہ کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطاء فرمائے…
بش ذلیل ہو کر چلا گیا تو ابامہ آ گیا…بش سے قدرے ذہین…بش سے زیادہ سازشی…اور دو منہ والا کالا سانپ…جس نے افغانستان کی جنگ میں…امریکی عزت بچانے کی ایک نئی کوشش کی… 
اور وہ یہ کہ…امریکی فوجی یہ جنگ نہ لڑیں …تاکہ زیادہ لاشیں زیادہ زخمی… اور زیادہ بری خبریں امریکہ نہ پہنچیں…اس نے افغانستان کے لئے ایک نیا پلان تشکیل دیا…سازش، فضائی حملے اور اپنا دامن بچا کر لڑنے کا پلان…اس نے زیادہ فوجیں افغانستان سے نکال لیں…ڈرون حملوں کا ایک جال بچھا دیا…
افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی…افغانوں میں سے اپنے لئے جنگجو خریدے…افغانستان کے کئی سازشی عناصر کو امریکہ میں شہریت دی اور ان کو امریکی فوج میں بھرتی کیا…پاکستان پر اس نے اپنا دباؤ بڑھا کر قبائلی علاقوں میں…ایک نئی آگ لگا دی…اور ساتھ ہی ساتھ ایران کا بھرپور تعاون کر کے…اسے امت مسلمہ کے کئی ممالک پر چڑھا دیا…ابامہ کی جنگ حکمت عملی… بش کی جارحانہ پالیسی سے زیادہ خطرناک تھی…ابتداء میں یوں لگا کہ…شاید ابامہ اس جنگ کا نقشہ پلٹ دے گا…اس نے کئی نامور مجاہدین کو شہید کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی…اس نے امارت اسلامی کے کئی افراد کو بھی توڑ کر محاذ جنگ کا پانسہ پلٹنے کی کوشش کی…مگر ساری دنیا نے دیکھا کہ…ابامہ بھی ناکام و ذلیل ہو کر گیا…اور خود اس کی فوج اس کے خلاف ہو گئی…اور اس کی ذلت اور ناکامی کا اثر اس کی پارٹی پر پڑا…اور ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کے تمام الیکشن میں ہار گئی…ابامہ ذلیل ہو کر چلا گیا…اسی دوران حضرت امیر المومنین رحمہ اللہ بھی دنیا سے…باعزت تشریف لے گئے اور اپنے پیچھے ایک فاتح لشکر چھوڑ گئے… افغانستان کا کانٹا امریکہ کے گلے میں بدستور اٹکا رہا…اور یہ کانٹا جب تک اٹکا رہے گا، امریکہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا…تب امریکی اپنا ایک نیا پتا میدان میں لے آئے…اور وہ ہے ’’ٹرمپ‘‘…اب ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی کا اعلان کر دیا ہے اور یہ پالیسی…بش اور ابامہ کی پالیسیوں کی ایک مشترکہ کھچڑی ہے…یعنی لہجہ اور جارحیت بش جیسی…اور سازش ابامہ جیسی…اس پالیسی میں انڈیا کو بڑا کردار دینے اور پاکستان کو جھٹکا دینے کا تذکرہ ہے…حیرانی کی بات یہ ہے کہ… انڈیا اور پاکستان دونوں اس پالیسی سے سخت ڈرے ہوئے ہیں…انڈیا جانتا ہے کہ…افغانستان میں اس کی کھلم کھلا دخل اندازی خود اس کے لئے موت کا پیغام ہے…جبکہ پاکستانی حکومت ہمیشہ سے امریکہ سے ڈرنے کی عادی ہے…یہاں ایسے عناصر ہمیشہ اوپر کی سطح تک موجود رہتے ہیں…{٣}
جبکہ پاکستانی حکومت ہمیشہ سے امریکہ سے ڈرنے کی عادی ہے… یہاں ایسے عناصر ہمیشہ اوپر کی سطح تک موجود رہتے ہیں… جن کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ وہ پاکستان کو ہمیشہ امریکہ سے ڈراتے رہیں…
خلاصہ
امریکہ اور نیٹو اتحاد نے افغانستان پر جو حملہ کیا تھا اسے سولہ سال ہو چکے ہیں
سولہ سال کی اس جنگ میں کفریہ صلیبی طاقتوں کو مسلسل ذلت اور شکست کا سامنا ہے
امریکہ کے دو صدر اپنی اپنی الگ پالیسیاں افغانستان میں آزما چکے ہیں… مگر افغانستان کا کانٹا اب بھی امریکہ کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکا ہوا ہے
اب تیسرے امریکی صدر نے افغانستان کے لئے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے… اس پالیسی کے خوف سے انڈیا بھی کانپ رہا ہے… اور پاکستانی حکومت بھی ڈر رہی ہے… حالانکہ پاکستانی حکومت کو اس موقع پر ہمت اور سمجھداری سے کام لینا چاہیے… پرویز مشرف نے ڈر اور خوف میں جو اقدامات کئے تھے ان اقدامات کی سزا اب تک پاکستانی قوم جھیل رہی ہے… اب بھی اگر ڈر اور خوف سے کچھ الٹے کام کئے گئے تو یہ ملک کے مفاد میں اچھا نہیں ہو گا…
دلچسپ خلاصہ
افغانستان پر صلیبی افواج کے حملے کے سولہ سال بعد
تیسرا امریکی صدر شکست کا ٹوکرا سرپا لادے چیخ رہا ہے چلا رہا ہے کمزور غنڈوں کی طرح دھمکیاں دے رہا ہے
امریکہ بھارت کو افغانستان میں بلا رہا ہے مگر بھارت کی ٹانگیں دھوتی کے اندر کانپ رہی ہیں
امریکہ اپنی شکست کا وبال پاکستان کے سر ڈال کر پاکستان کو مزید غار کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے… اور پاکستان میں موجود امریکی ایجنٹ پاکستان کو ڈرنے کے مشورے دے رہے ہیں…
یہ سب کچھ جن کے خلاف ہو رہا ہے… یعنی امارت اسلامی کے طالبان… وہ خوش ہیں، مطمئن ہیں، بے فکر ہیں…
واہ سبحان تیری قدرت
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭


 

1 comment: