Thursday, December 12, 2024

مسجد نامہ

مسجد نامہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 451)


اﷲ تعالیٰ نے ایمان کی ایک بڑی علامت ارشاد فرمائی ہے:

’’مساجد تعمیر کرنا، مساجد آباد کرنا‘‘

 آج ان شاء اللہ اسی بارے چند اہم باتیں عرض کرنی ہیں… پہلے ایک نظر’’دنیا‘‘ پر…

حالات حاضرہ
۱۔ بی بی سی کے جنگی تجزیہ نگار… فرنیک گارڈنر نے ایک ’’قلم توڑ‘‘ بات لکھ دی ہے…

وہ کہتا ہے!!

’’تیرہ سال سے دنیا کے تمام ممالک مل کر جہاد اور مجاہدین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… انہوں نے اس کی خاطرہر حربہ آزما لیا ہے… مگر تیرہ سال کی ان متحدہ کوششوں کے باوجود اُن کے لئے خوشی کی ایک خبر بھی نہیں ہے‘‘…

دیکھیں کیسی سچی بات اس کے قلم اور زبان پر آگئی… سب پڑھیں:

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ، الحمدﷲ، اﷲ اکبر، سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
۲۔ ابامہ جو صدر ہے امریکہ کا… اس کے منہ سے ایک’’زبان کاٹ‘‘ بات نکل گئی وہ کہتا ہے:

’’عراق میں ہم امریکیوں نے جو قربانیاں پیش کیں وہ عراق کی نا اہل حکومت کی وجہ سے سب ضائع اور رائیگاں چلی گئیں‘‘

بھائیو!دل سے پڑھیں:

اﷲ اکبر کبیرا،اﷲ اکبرکبیرا

۳۔ ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک جنرل… جس کا نام قاسم سلیمانی ہے وہ آج کل عراق میں ہے اور مجاہدین کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کی مدد کر رہا ہے… اس سے پہلے وہ شام میں تھا جہاں اُس نے مجاہدین کے خلاف بشار الاسد کے قاتلوں کی کمان کی… ایک ملک کا جنرل دوسرے ملکوں میں اس قدر کھلا کردار ادا کررہا ہے… مگر اس غیر ملکی مداخلت پر اقوام متحدہ خاموش، امریکہ خوش اور انڈیا مطمئن ہے… جبکہ پاکستان والے اگر اپنے کشمیر میں چلے جائیں تو غیر ملکی مداخلت کا شور بجنے لگتا ہے… اسے کہتے ہیں’’اسلام دشمنی‘‘ سب کہیں…

قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ
مرگ بردشمنان اسلام

مساجد کی طرف
مساجد کا موضوع بڑا دلکش اور بہت مفصل ہے… پہلے تین قصے سن لیں

۱۔ ترکی کی ایک مسجد میں ایک بزرگ چھوٹے بچوں کو سورہ فاتحہ یاد کرا رہے تھے… بچے بس چھ سات سال کی عمر کے تھے… پوری مسجد میں سورہ فاتحہ کا ترنم گونج رہا تھا … بزرگ کی عادت تھی کہ روزآنہ سبق کا امتحان لیتے اور اول آنے والے بچے اور بچی کو دس روپے انعام دیتے … اور سب بچوں کو کچھ نصیحت فرماتے…

سبق کا وقت ختم ہوا… بزرگ نے ایک ایک بچے سے امتحان لیا… اور اب بچے آنکھیں مٹکا مٹکا کر انتظار میں کہ… دس روپے کسے ملتے ہیں؟… بزرگ نے آج انداز بدل لیا… فرمایا! آج ایک اور امتحان…ہر بچہ بتائے کہ اگر اُسے دس روپے ملے تووہ اُن سے کیا خریدے گا؟… بچے جواب دینے لگے

غبارے، کھلونا، گاڑی، آئس کریم وغیرہ… مگر’’فاطمہ‘‘ خاموش… بزرگ نے پوچھا اگر فاطمہ بیٹی انعام جیت گئی تو وہ کیا خریدے گی… فاطمہ تھوڑی دیر شرمائی پھر بولی ٹافیاں… بزرگ نے فرمایا! اب ایک قصہ سنو اس کے بعد بتاتا ہوں کہ آج کا انعام کسے ملے گا…

دیکھو! اس مسجد میں کتنے لوگ نماز ادا کرتے ہیں… وہ کتنے سجدے کرتے ہیں… کتنے رکوع… کتنی دعائ، کتنے آنسو… اس مسجد میں کتنا درس ہوتا ہے، کتنا دین کا کام اور کتنے لوگ یہاں توبہ کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنی تعلیم ہوتی ہے، کتنے بچے پڑھتے ہیں… رمضان میں کتنے لوگ اعتکاف کرتے ہیں، کتنے روزے دار افطاری کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنے جاہلوں کو علم ملتا ہے، کتنے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے… کتنا ذکر ہوتا ہے ، کتنی تلاوت ہوتی ہے…

کیا کسی کے بس میں ہے کہ… ایک آباد مسجد میں چوبیس گھنٹے میں جتنی نیکیاں ہوتی ہیں اُن کو لکھ سکے؟… کتنی بار سبحان ربی الاعلیٰ، کتنی بار سبحان ربی العظیم… کتنا صدقہ، خیرات… اور کتنی مناجات… مسجد کے تمام اعمال اگر لکھے جائیں تو صرف ایک دن کی نیکیوں کو ہزار صفحات پر بھی نہیں لکھا جا سکتا … پھر ایک سال میں کتنی نیکیاں ہوتی ہونگی؟…اور دس سال میں کتنی؟… کیا کسی کے بس میں ہے کہ شمار کر سکے؟… سب بچوں نے آواز لگائی… کسی کے بس میں نہیں…

بزرگ نے فرمایا ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان تمام نیکیوں کا ثواب اُس ایک شخص کو ملتا ہے جس نے یہ مسجد تعمیر کی تھی…عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی… مگر مسجد بنانے والے کو اُن تمام اعمال کا پورا ثواب ملتا ہے جواُس مسجد میں ہوتے ہیں، جو اس مسجد سے اٹھتے ہیں… اور جو اس مسجد سے پھیلتے ہیں… مثلاًآپ نے آج سورہ فاتحہ یاد کر لی… یہ آپ نے چونکہ اس مسجد میں بیٹھ کر یاد کی ہے… تو اس کا ثواب اور آپ لوگ پوری زندگی جتنی سورہ فاتحہ پڑھیں گے اُس کا ثواب… اور آپ آگے جن کو سورہ فاتحہ سکھائیں گے… اُس کا ثواب… یہ سب اس مسجد بنانے والے کے نامہ اعمال میں بھی شامل ہوتا جائے گا…کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جس نے یہ مسجد بنائی؟… اس کا نام’’خیر الدین‘‘ تھا… ایک غریب، متوسط آدمی، نہ عالم نہ مشہور بزرگ…بس اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ… اُسے شوق تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا گھر بناؤں… اُس نے ایک تھیلا سلوایا… یہ تھیلا وہ اپنے ساتھ رکھتا… بازار جب بھی جاتا توجو پھل اچھا لگتا اُسے دیکھ کر کہتا… لو بھائی گویا کہ یہ میں نے کھالیا… پھر جیب سے اُس پھل کی قیمت برابر پیسے نکال کر تھیلے میں ڈال لیتا… کبھی گوشت کی دکان پر گوشت اچھا لگتا تو کہتا… لوبھائی! گویا کہ میں نے یہ گوشت خریدا، پکایا اور مزے سے کھا لیا… پھر اس گوشت کی قیمت تھیلے میں ڈال لیتا… سالہا سال تک اس محنت اور مجاہدے کے بعد اس نے تھیلا کھولا تو بڑی رقم جمع تھی… جس سے اُس نے یہ مسجد بنائی…

قصہ سنا کربزرگ نے کہا… اب آج کے انعام کا اعلان… آج کا انعام’’ فاطمہ‘‘ کا ہے اُس نے سورہ فاتحہ سب سے اچھی یاد کی ہے… فاطمہ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا… اٹھ کر انعام وصول کیا… بزرگ نے پوچھا: فاطمہ ان پیسوں سے کیا لے گی… فوراً جواب آیا:کچھ بھی نہیں…

بزرگ نے کہا… تم نے تو ٹافیاں لینی تھیں… فاطمہ مسکرائی اور بولی… ٹافیاں گویا کہ میں نے کھا لیں… اب میں یہ پیسے جمع کروں گی اور مسجد بناؤں گی… سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم…

۲۔ دوسرا قصہ بھی قریبی زمانے کا ہے… ایک مالدار شخص نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائے… اپنے ملازموں سے کہا کوئی مناسب پلاٹ ڈھونڈو… چند دن کی کوشش سے ایک پلاٹ پسند کر لیا گیا… بہت مناسب جگہ پر تھا اور قیمت پینتیس لاکھ… جو اس مالدار کے لئے بہت آسان تھی… بات طیٔ ہو گئی…پتا چلا کہ یہ پلاٹ ایک غریب چوکیدار کا ہے… وہ اپنے پانچ چھ بچوں کے ساتھ سالہا سال سے غربت اور فقر و فاقہ کی زندگی کاٹ رہا تھا… اب کچھ خاندانی جائیداد تقسیم ہوئی تو اس کو یہ پلاٹ ملا جسے اُس نے فوراً ’’برائے فروخت‘‘ کر دیا تاکہ اس رقم سے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکے… خریدنے کے دن مالدار شخص بیس لاکھ کا چیک لیکرپہنچا… پلاٹ کے مالک نے کہا باقی پندرہ لاکھ؟… اُس نے کہا اوقاف سے جس دن منظوری آگئی اس دن باقی پندرہ لاکھ دے دوں گا؟ پلاٹ والے نے کہا اس میں اوقاف کا کیا کام؟… مالدار نے کہا میں نے یہاں مسجد بنانی ہے اس لئے اوقاف سے اجازت مانگی ہے…مسجد کا نام سن کر پلاٹ کا مالک رونے اور کانپنے لگا… اس نے چیک پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا! جائیے میں یہ پلاٹ نہیں بیچتا… پوچھا کیوں؟… کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے پلاٹ خرید کر اللہ کا گھر بنائیں… پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جنت میں گھر بنائے… اور میں پلاٹ کا مالک ہو کر اس سعادت سے محروم رہوں… اب میں اس پلاٹ پر مسجد ہی بناؤں گا… کروڑ پتی مالدار نے اُس غریب چوکیدار کے سامنے سر جھکا کر کہا… زندگی گزر گئی میں نے آج تک کسی کے سامنے خود کو چھوٹا یا حقیرنہ سمجھا… مگر آج میں خود کو آپ کے سامنے بے حد حقیر سمجھ رہا ہوں…

۳۔ تیسرا قصہ کچھ پرانے زمانے کا ہے… ایک بادشاہ نے ارادہ کیا کہ وہ ایک ایسی مسجد بنائے گا جس میں اس کے سوا کسی کا کوئی حصہ نہ ہو… اس نے پہلے جگہ خریدی،پھر اعلان کر دیا…خبردار کوئی بھی اس مسجد میں کسی طرح کا اپنا حصہ شامل نہ کرے… نہ مال نہ خدمت… جس نے کام کرنا ہو مزدوری اور اجرت پر کرے… خیر: اسی شرط کے ساتھ مسجد تیار ہو گئی سارا مال بادشاہ کا لگا… مسجد کے دروازہ پر بادشاہ نے اپنا نام لکھوا دیا… اور مسجد میں نماز شروع ہو گئی… ایک رات بادشاہ نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترا اُس نے مسجد کے دروازہ سے بادشاہ کا نام کاٹ کر ایک عورت کا نام لکھ دیا… بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا مجھے اسی کا حکم ہے…صبح جب بادشاہ اٹھا تو بہت پریشان… اپنے کارندے بھیجے کہ جاکر دیکھو! میرا نام موجود ہے یا نہیں؟… انہوں نے جا کر دیکھا بادشاہ کا نام موجود تھا…مگر دوسری رات پھر وہی خواب… اور تیسری رات بھی…مگر جب جا کر دیکھتے تو بادشاہ کا کتبہ موجود ہوتا… بادشاہ نے خواب میں اس عورت کا نام یاد کر لیا تھا… اپنے لوگوں کو اس کی تلاش پر لگا دیا… وہ عورت مل گئی… اسے طلب کر لیا گیا… وہ بہت بوڑھی تھی اور رعشہ کی وجہ سے اس کا جسم کپکپاتاتھا… اور اس طلبی پر مزید بھی خوف سے کانپ رہی تھی… بادشاہ نے کہا…اے خاتون! آپ نے اس مسجد میں کیا حصہ ڈالا؟… اس نے کہا کچھ بھی نہیں… میں غریب کمزور بڑھیا… میری مجال کہ آپ کے اتنے سخت اعلان کے بعد کوئی جرأت کرتی… بادشاہ نے اس کو اللہ کا واسطہ دیا اور کہا آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا سچ بتا دیں… وہ بولی: بادشاہ سلامت کچھ بھی نہیں، بس اتنا کہ ایک گرمی کی دوپہر میں وہاں سے گزر رہی تھی… مزدور کاریگر سب اندر آرام میں تھے… ایک جانور جو مسجد کا سامان اٹھاتا تھا وہ باہر بندھا ہوا تھا… پیاس کی وجہ سے اس کا بُرا حال تھا… اس کے قریب ہی پانی کا بھرا برتن رکھا تھا مگر وہ اُس تک نہیںپہنچ سکتا تھا اور بار بار زور لگا کر ہانپ رہا تھا… میں نے وہ برتن اس کے قریب کر دیا اور اُس نے وہ پانی پی لیا… بس میں نے یہی خدمت کی… بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا…

اماں! آپ نے اتنا سا کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے ساری مسجد آپ کے نام کر دی… اور میں نے اتنا سارا کام اپنے نام کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسجد کے اجر میں مجھے شامل نہ فرمایا… پھر اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ جاکر مسجد سے میرا نام کاٹ دو اور اسی خاتون کا نام لکھ دو…

مقصد یہ کہ مسجد میں اخلاص کے ساتھ تھوڑی سی محنت کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے… دراصل مسجد ایمان کا قلعہ… اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین جگہ ہے…ارشاد فرمایا:

احب البلاد الی اﷲ مساجدھا وابغض البلاد الی اﷲ اسواقھا

اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ مسجد اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہے۔ (صحیح مسلم)

آج بازار کتنے آباد ہوگئے… کیسی کیسی جدیدمارکیٹیں اور ان مارکیٹوں پر اُن سے بھی زیادہ پرفریب مارکیٹیں… جبکہ مساجد کی طرف مسلمانوں کی وہ توجہ نہیں ہے جو ایک حقیقی مسلمان کو ہونی چاہئے… جماعت نے الحمدللہ تین سو تیرہ مساجد تعمیر اور آباد کرنے کی نیت کر رکھی ہے… اللہ تعالیٰ کافضل دیکھیں کہ الحمدللہ اب تک اٹھاون مساجد تیار ہو چکی ہیں… ابھی حال ہی میں کراچی کے ایک خوش نصیب تاجرنے خود ایک مسجد تمام ضروریات کے ساتھ تیار کر کے جماعت کو دے دی ہے…اللہ تعالیٰ اُن کے اس عمل کو خاص قبولیت عطاء فرمائے…اور اب جماعت کے پاس جتنے پلاٹ موجود ہیں… ان میں سے مناسب مقامات پر رمضان المبارک کے بعد مساجد کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا…

دراصل جہاد اور مسجد کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے… اہل علم نے تو یہاںتک لکھا ہے کہ… حضرت آقا مدنیﷺ مجاہدین کو مساجد کے ساتھ باندھ گئے ہیں تاکہ اُن کا جہاد مقبول اور کامیاب ہو… اسی لئے مسجد ہر جگہ مجاہد کے ساتھ چلتی ہے اور ہر قدم پر مجاہد کو نئی قوت، نیا جذبہ اور مضبوطی عطاء کرتی رہتی ہے… اہل سیر نے لکھا ہے کہ جہاد اور مسجد کے اس لزوم کی وجہ سے حضرت آقا مدنیﷺ کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی جہاد کے سفر پر نکلتے تو راستے میں مساجد بناتے جاتے یا مساجد بنانے کا حکم فرماتے جاتے… صرف ایک غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک قول کے مطابق آپﷺ نے سولہ مساجد… اور دوسرے قول کے مطابق بیس مساجد تعمیر فرمائیں… آپ سیر کی کتابوں میں دیکھ لیں… ان تمام مساجد کے نام اور مقامات تک محفوظ ہیں… مجاہد کے ساتھ مسجد رہتی ہے تو وہ کبھی ناکام نہیںہوتا… مگر جب وہ مسجد سے دور ہٹ جائے تو پھر طرح طرح کے فتنوں کا شکار ہو کر کمزور ہوجاتا ہے… دشمنان اسلام نے تعاون اور میڈیاوار کا دھوکہ دے کر اپنے لوگ مجاہدین میں گھسائے جنہوں نے مساجد سے کٹے ہوئے دفاتر قائم کر کے مجاہدین کو مساجد سے دور کر دیا…تاکہ ان میں حبّ دنیا اور حبّ الشہوات کے بیچ بو سکیں… پس جو دفاتر کے ہو کر رہ گئے وہ حقیقی جہاد سے کٹ گئے… مگر جو اس فتنے کا شکار نہیں ہوئے وہ کامیاب رہے… اور اللہ تعالیٰ نے انہیںشہادتوں اور فتوحات سے نوازا… ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو اُن مساجد کا مفصل تذکرہ القلم میں آجائے گا… جو حضور اقدسﷺ نے اسفارِ جہاد کے دوران قائم فرمائیں…

آج کی آخری بات
مسجد تعمیر کرنا، مسجد آباد کرنا، مسجد کی خدمت کرنا، مسجد میں خوشبومہکانا، مسجد کی حفاظت کرنا، مسجد کی صفائی کرنا… مسجد میں باادب رہنا… مسجد میں بیٹھ کر جہاد کی ترتیب بنانا… یہ تمام اعمال بہت فضیلت والے ہیں…جماعت کی توجہ الحمدللہ مساجد کی طرف بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تین سو تیرہ کے ہدف کی جانب گامزن ہے… اس رمضان المبارک میں’’مسلمان‘‘ مساجد کے لئے بھی دل کھول کر اموال نکالیں… اور جہاد فی سبیل اللہ میں بھی بڑھ چڑھ کر جان و مال لگائیں… اور جہاد میں جان و مال لگانا… کعبہ شریف کی تعمیر سے بھی زیادہ افضل ہے…

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

 لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭


 

Tuesday, December 10, 2024

ایک ضروری دعوت

ایک ضروری دعوت

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 450)


اللہ تعالیٰ ہی ’’غیب ‘‘کا علم رکھتے ہیں… انسان کاعلم بہت تھوڑا ہے

وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
ہماری جماعت کے بزرگ اور صاحب علم مجاہد… حضرت مولاناعبدالعزیزصاحب کشمیری ابھی دو روز قبل انتقال فرماگئے

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
عراق کی طرف حالات نے حیرت انگیزکروٹ لی ہے …امریکہ سے لیکرایران تک تمام باطل طاقتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں …عراق وشام کے مجاہدین کے ایک مشترکہ لشکر نے صوبہ نینوامکمل فتح کرلیا ہے …اوربغداد کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے …جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھاتوکون جانتا تھا کہ …ایسا بھی ہوجائے گا …ہاں بیشک جہاں ظلم آتاہے وہاں … جہادفی سبیل اللہ گرجنے برسنے لگتا ہے …

وَاللّٰہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْکِیْلًا
اس سال الحمدللہ آیات الجہاد کا دورہ تفسیر …بہت کامیاب،مفید اور منظم رہا …پڑھنے والوں کی تعداد بھی بڑھی اورپڑھانے والوں میں بھی اضافہ ہوا …یہ دورہ تین مراحل میں مکمل ہوا  …اورماشاء اللہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مرد اور خواتین نے قرآن مجیدکی آیات جہادکواس سال پڑھا

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ
شمالی وزیرستان میں نیاآپریشن شروع ہوچکاہے …بہت عرصہ سے اس آپریشن کی تیاری تھی …اب جبکہ رمضان المبارک بالکل قریب ہے ،موسم سخت گرم اور زمینی مزاج شدید ہے  …یہ آپریشن شروع کردیا گیا ہے …وہ جو مسلمانوں کوباہم لڑاناچاہتے تھے ان کے لئے اس شعبان میں  …بس یہی ایک خوشی کی خبر ہے

اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
یہ ہیں آج کی چار باتیں جن پر مختصر سی نظر ڈالنی ہے  …حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب نوراللہ مرقدہ کے انتقال پرملال کی خبراس وقت آئی جب  …بہاولپور میں جماعت کے ذمہ داروں کا اجتماع جاری تھا …پندرہ شعبان کے بابرکت دن اس میٹھے مزاج والے مہاجر فی سبیل اللہ بزرگ نے …اچانک رخت سفر باندھ لیا …ان کی صحت اچھی ہوتی تووہ ضروراجتماع میں تشریف لاتے …انہیں اپنی جماعت سے بہت محبت تھی اورجماعت کے اجتماعات میں وہ اہتمام سے شرکت کرتے تھے …وہ کشمیر کے اس معروف باجی باکروال خاندان سے تعلق رکھتے تھے …جس خاندان کی سیاحتی حکومت کشمیر،جموں ،لداخ سے لیکر بالاکوٹ کے پہاڑوں تک پھیلی ہوئی ہے …یہ سادہ طبیعت،باصلاحیت ،بہادر اور صاف دل خاندان  …بڑے اللہ والے اولیاء کاقبیلہ ہے …۱۹۹۴؁ ء کے آغاز میں بندہ دہلی گیاتھاجہاں کشمیر کے دیگرعلماء کرام کے ساتھ حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب سے بھی ملاقات ہوئی …ان دنوں کشمیر کی تحریک عروج پر تھی اورمجاہدین کی صف بندی پہاڑوں سے اتر کر میدانوں کارخ کررہی تھی  …بندہ نے علماء کرام کے اس مختصر وفد کے سامنے ہجرت وجہاد کی بات رکھی …سب نے تائیداورحمایت فرمائی اور حضرت مولاناعبدالعزیزصاحب ؒ فوری ہجرت کے لئے آمادہ ہوگئے …وہ سری نگر میں مقیم تھے اوروہاں کے معروف ’’میرواعظ‘‘خاندان کے استاذتھے  …سری نگر کامیرواعظ خاندان طویل عرصہ تک کشمیرکابے تاج بادشاہ رہا ہے …آج بھی اس خاندان کااثر ورسوخ کافی حد تک قائم ہے  …اگرچہ سیاست کی خاردار جھاڑیوں نے پہلے جیسی بات نہیں رہنے دی …حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب ؒ کاہجرت کے لئے تیارہونابندہ کے لئے ایک خوشگوار خبر تھی  …پھر یہ ہوا کہ میں تو وہاں رہ گیااوروہ اپنے وعدہ کے مطابق یہاں پاکستان تشریف لے آئے …انڈیا سے رہا ئی کے بعد ان سے دوسری ملاقات یہیں پاکستان میں ہوئی  … اور وہ ہماری جماعت میں محبت کے ساتھ شامل ہوگئے … ان کی ہجرت جہاد کے لئے تھی اس پر وہ تادم آخر ڈٹے رہے اورجہاد کی خدمت کے ساتھ ساتھ علم دین کی روشنی بھی پھیلاتے رہے  …ماشاء اللہ بہت اچھے مدرس اورسراجی کے ماہر عالم دین تھے …مجاہدین کوبہت درد کے ساتھ اتفاق واتحاد اوراطاعت امیر کاہمیشہ درس دیتے تھے …آج وہ ’’گڑھی حبیب اللہ ‘‘کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں …جبکہ تحریک کشمیر کومسکراہٹوں،ساڑھیوں اورسازشوں میں دفن کرنے کی کوشش ان دنوں تیزترہے …کتنے عظیم لوگ اس تحریک کی ہجرت گاہوں میں دفن ہوگئے  …کیسے کیسے البیلے جانباز اس تحریک میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے …کیسی کیسی رشک بتاں جوانیاں اس تحریک کے دوران سایوں میں ڈھل گئیں  …مگربے عزم اوربے ضمیر حکمرانوں نے کبھی بھی اس مبارک تحریک کے ساتھ وفاداری نہیں کی …ہاں یہ ضرور ہے کہ  … اس تحریک کے ساتھ غداری اور ظلم کا معاملہ کرنے والے  … خود قدرت کے انتقام کانشان بن گئے  … اور آج جو غداری پر تلے ہیں ان کے دن بھی کچھ زیادہ باقی نہیں ہیں … مجھے یقین ہے کہ شہداء کاخون رائیگاںنہیں جاسکتا …ان شاء اللہ یہ تحریک  … کامیابی پائے گی،بلکہ ہماری توقع سے بھی زیادہ بہتر اس کے نتائج نکلیں گے …ہاں شرمندگی ہے کہ ہم مولاناعبدالعزیزاوران جیسے مہاجرین فی سبیل اللہ کوان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی فتح کامژدہ نہ سنا سکے …مگر پہاڑوں کے اوپر سورج چمک رہا ہے  …اور اس سے بھی اوپر شہداء کاخون چمک اور مہک رہا ہے … یہ افسانہ نہیں اور نہ ہی لفاظی  …کل تک ہم جو کچھ عراق کے بارے میں کہتے تھے وہ مذاق کانشانہ بنایاجاتاتھا …مگرآج عراق کاکانٹاہردشمن اسلام کے حلق میں اٹکا ہوا ہے  …ممکن ہے مجاہدین کوپھروقتی طور پرپسپاہوناپڑے …اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان کی پیش قدمی جاری رہے  …مگر یہ توسوچاجائے کہ اتنے سارے مجاہدین کہاں سے آگئے؟ …عراق میں عشروں تک جہادکانام لیناجرم تھا …اورپھربتیس ممالک نے مکمل طاقت کے ساتھ عراق کووحشی کتوں کی طرح بھنبھوڑا …اوروہاں اپنی پسند کی حکومت بٹھادی …اور اس حکومت کوپیسے اور اسلحے سے لیس کردیا

…توپھرمجاہدین کے اتنے بڑے لشکر کہاں سے آگئے  ؟…سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم …جہاد ایک حقیقت ہے ،جہاد اللہ تعالیٰ کا نہ مٹنے والاحکم ہے  …جہاد اللہ تعالیٰ کی ابدی اور دائمی کتاب قرآن مجیدکاموضوع ہے …جہاد میرے آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب عمل ہے  …ارے جس جہاد میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خون لگا ہو… اس جہاد کو کون روک سکتا ہے؟ …اس جہاد کو کون شکست دے سکتا ہے؟ …ہم ہوں گے یانہیں ان شاء اللہ وہ وقت ضرورآئے گا …جب جماعت کا کوئی دیوانہ مجاہد … گڑھی حبیب اللہ کے قبرستان جائے گا … اور حضرت مولاناعبدالعزیز صاحب ؒ کو فتح کشمیراورفتح ہند کی خوشخبری سنا کر کہے گا …حضرت مبارک ہو!

’’بڑھاپے میں کی گئی آپ کی ہجرت ضائع نہیں گئی ‘‘ …

اس وقت کفر و اسلام کا معرکہ اب اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے …اور ان شاء اللہ اگلے دس سال میں جہادکامیدان بہت وسیع …اورجہاد کے محاذبہت دور تک پھیل جائیں گے …دشمنان اسلام نے تقریباًیہ تو طئے کرلیاہے کہ …اب خودمسلمانوں کے سامنے نہیں آنا …بلکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کرمارنا ہے …اسی منصوبے کے تحت طرح طرح کے مضحکہ خیز ’’انتخابات‘‘ ہورہے ہیں  … مصر کا دم کٹافرعون ’’السیسی ‘‘صرف آٹھ فیصدووٹ لیکر مصرکاصدر بن چکا ہے  … اورحیرت یہ کہ ساری دنیا نے اس کی حکومت اور صدارت کو تسلیم کرلیا ہے  … دشمنوں کا یہ قدم مصر ،وادی سینااوردور افریقہ تک جہاد کے نئے محاذ کھولنے کا ذریعہ بنے گا …ادھرشام کابھورادجال’’بشارالاسد‘‘ …اپنے سرکاری اہلکاروں کے ووٹ لیکر تیسری بار اس مقدس سرزمین پرطاعون کا چوہا بن کر ابھرا ہے  …امید ہے کہ ا ن شاء اللہ یہ اس کی آخری مدت ہوگی …اور شام کامحاذگولان کی پہاڑیوں سے اترتاہوا … مسجداقصیٰ کے مجاہدین سے جاملے گا …الحمدللہ  … آج مسلمانوں کے وجود کوتسلیم کیاجارہا ہے  …دشمنان اسلام نے بے پناہ جنگی اورسائنسی طاقت بناکریہ سمجھ لیا تھا کہ  …وہ دنیا سے اسلام اورمسلمانوں کا خاتمہ کردیں گے…مگر جب وہ اس امت کے سامنے زمین پر اترے تو …ماشاء اللہ منظر ہی کچھ اور تھا …سبحان اللہ!بیس سال سے جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں  … اور حملے بھی اتحادی …مگرآج تک ایک فتح بھی ان کے کاغذوں میں جگہ نہ پاسکی …شکست جمع شکست جمع ذلت جمع ناکامی …نتیجہ بھاگواور مسلمانوں کو آپس میں لڑاؤ …اب مجاہدین اورعلماء کرام کا یہ کام ہے کہ ایک طرف تووہ خالص شرعی جہادفی سبیل اللہ کی دعوت تیز کردیں …کیونکہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں جانے کو ہے  …اوردوسراکام یہ کہ اپنی دعوت میں اس بات کو بھی بیان کریں کہ  … مسلمانوں کا خون ایک دوسرے پرحرام ہے …ہاں بیشک  …مسلمان کے خون کی حرمت کعبہ شریف کی حرمت سے بھی زیادہ ہے …

لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ  …لاالہ الا اللّٰہ   لاالہ الااللّٰہ   لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنامحمدوعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیرا کثیرا
٭…٭…٭


 

Wednesday, November 20, 2024

ماشاء اﷲ لا قوہ الا باﷲ

ماشاء اﷲ لا قوہ الا باﷲ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 434)


اﷲ تعالیٰ جو چاہے تو ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی مددکے سوا کوئی طاقت نہیں

مَا شَاَء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

جہاد کا نیا محاذ
اوپر جو آپ نے پڑھا وہ قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا حصہ اور مفہوم ہے، ایک بار پھر محبت سے پڑھ لیں:

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

 

ایک تصویر پر اچانک نظر پڑی اور پھر نظر بھیگ گئی… ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک کٹی ہوئی انسانی پنڈلی لے کر اُسے اپنے دانتوں سے نوچ رہا تھا… میڈیا والے دھڑا دھڑ فوٹو کھینچ رہے تھے وہ پنڈلی کا گوشت کھاتے ہوئے کہہ رہا تھا… میں پاگل کتا ہوں، میں اسی طرح مسلمانوں کا گوشت کھاؤں گا… منظر وسطی افریقہ کا تھا، پنڈلی ہمارے ایک مسلمان محمدی بھائی کی تھی… اور اُسے نوچنے چبانے والا ویٹی کن کے پاپا کا مُرید ایک کالا صلیبی،  عیسائی تھا… آہ امت مسلمہ!!! آہ ہمارے مظلوم مسلمان بھائی اور بہنیں!… ویٹی کن کا پاپا امن امن کے جھوٹے گیت گاتا پھرتا ہے، مغربی دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد کہتی ہے… اور پھر یہی لوگ ہمارے مسلمان بھائیوں کو مارتے ہیں، کاٹتے ہیں، جلاتے ہیں… اور اب کھاتے بھی ہیں…

ان شاء اﷲ اب وسطی افریقہ پر بادل گرجیں گے، بجلیاں کڑکیں گی، موت برسے گی اورالجہاد، الجہاد کے دلکش نعرے گونجیں گے… ہاں! کسی کو ا س بات میں شک نہیںہونا چاہئے کہ… مسلمانوں کے ساتھ جب یہ سلوک کیا جائے گا تو ساری دنیا’’امن‘‘ کو ترسے گی…اے مسلمانو! مظلومیت اور بے کسی کی موت مرنے کی بجائے… بہادروں اور فدائیوں والی موت کے گلے میں بانہیں ڈال دو… ہم کب تک مرثیے روتے رہیں گے… وہ دیکھو! مکہ میں حضرت آقا مدنیﷺ… مکمل مسلح جنگی لباس میں فاتحانہ داخل ہو رہے ہیں… ارے کبھی تو اپنے محبوب آقاﷺ کا یہ لباس بھی پہن لیا کرو…

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

دل میں اتاریں
یہ جو قرآن پاک کے روشن الفاظ ہیں، ان کو دل میں اتاریں

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

یہ الفاظ دل میں اُتریں گے تو روشنی ہوجائے گی… خوف کے چوہے، بزدلی کے گیدڑ اور حرص و لالچ کے کتے دل سے بھاگ جائیں گے… پھر وجد کے ساتھ پڑھیں:

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

یہ سورۃ الکہف کی آیت ۳۹ کا ایک حصہ ہے… اس کے تین ترجمے ملاحظہ فرمائیں

ترجمہ لاہوری:حضرت مولانااحمد علی لاہوریؒ یوں ترجمہ کرتے ہیں!

(۱) جو اﷲ تعالیٰ چاہے تو ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں

ترجمہ محمودی: حضرت شیخ الہندؒ اس طرح سے ترجمہ فرماتے ہیں!

(۲) جو چاہے اﷲ، سو ہو، طاقت نہیں مگر جو دے اﷲ

ترجمہ شاہی: آخر میں اردو ترجموں کا امام… حضرت شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ!

(۳) جو چاہا اﷲ کا، کچھ زور نہیں مگر دیا اﷲ کا

اب ترجمہ ذہن میں رکھ کر یقین کے ساتھ پڑھیں:

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اپنی کوئی بھی نعمت دیکھ کرپڑھے:

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

تو موت کے سوا کوئی آفت اس نعمت کو اس سے نہیں چھین سکتی

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

بس طاقت صرف’’اﷲ‘‘ کی ہے اور اﷲ تعالیٰ جسے طاقت دے وہی طاقت والا ہے… اے مسلمانو! اسے دل میں بٹھا لو… امریکہ، انڈیا، اسرائیل، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایٹم بم کا خوف دل سے نکال دو… اﷲ تعالیٰ جو چاہے وہی ہوتا ہے…

یہ سب بے بس، بے کس اور بے چارے ہیں… ان میں تو اتنی بھی’’طاقت‘‘ نہیں کہ سچا کلمہ پڑھ سکیں… ان میں تو اتنی قوت بھی نہیں کہ اپنے رب اور مالک کو پہچان سکیں…

ان میں اتنی سی صلاحیت بھی نہیںکہ چاند یا سورج کا رخ موڑ سکیں یا اُن کے طلوع و غروب کے اوقات بدل سکیں… ان میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ پانی کا ایک قطرہ بنا سکیں… ان میں تو اتنا زور نہیں کہ مردہ کو زندہ کر سکیں… یا اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی زندہ کو مُردہ کر سکیں… یہ جن کو مارنا چاہتے ہیں وہ بھرپور زندگی جی رہے ہیں اور یہ جن کو بچانا چاہتے ہیں اُن کے تابوت روز اٹھ رہے ہیں…

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

آیت مبارکہ کا ورد
بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ گزارش ہے کہ اس آیت مبارکہ کو بھی اپنا ورد بنا لیں

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ قرآنی الفاظ:

’’مفتاح زیادۃ الخیر فی الدنیا و دوام النعمۃ فیھا‘‘
دنیا میں زیادہ خیر پانے کی چابی اور نعمتوں کے برقرار رہنے کا ذریعہ ہیں…

ہم روز اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں… کتنے زندہ دل، مُردہ ہو گئے، کتنے شب بیدار غافل ہو گئے… کتنے بہادرمجاہد دنیا کی حقارتوں میں پھنس گئے… کتنے شان والی نمازی، سجدوں کی حلاوت کھو بیٹھے، کیسے پُرنور ذاکر گناہوں کی دلدل میں دھنس گئے… کتنے خوش خرام چہرے، غموں اور اداسیوں میں ڈھل گئے، کیسی قابل رشک صحتیں بیماریوں میں روندی گئیں… کیسے متحرک دین کے کارکن ادنی دھندوں میں گم ہو گئے… ہائے کاش ہم اپنی ہر نعمت کودیکھ کر فوراً ان نعمتوں کے دینے والے کو یاد کر لیا کریں اور اس کا بہترین طریقہ ہے:

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ، مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
جہاد آگے
آج کا اصل عنوان ہے… افریقہ کا جہاد کہ وہاں ظلم بہت بھونک رہا ہے… یاد رکھیں ایک زمانے تک جہاد اُمت مسلمہ کے آگے آگے تھا… قرآن مجید کی روشن آیات نے ہمیں سمجھایا اور حضرت آقا مدنیﷺ نے ہمیں… خون میں اپنا مقدس چہرہ تر کر کے سکھایا کہ ہم مسلمان جہاد فی سبیل اﷲ کو اپنے آگے آگے رکھیں… یوں اُمت مسلمہ کمزوری سے اور مسلمان ظلم سے بچے رہیں گے… ہمیں حکم دیا گیاکہ ہم اپنے گھروں میں نہ بیٹھیں بلکہ کلمہ طیبہ:

’’لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘

کی دعوت لیکر دنیا بھر میں پھیل جائیں… ہم یہ دعوت لیکر جب جائیں تو’’مسلّح‘‘ جائیں اور اس سب سے قیمتی کلمے کو اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی ’’جان‘‘ پر رکھ کر جائیں…

پھر جو مان لے اور دل کے یقین کے ساتھ پڑھ لے:

لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ

وہ ہمارا بھائی ہے… وہ گورا ہو یا کالا، مشرقی ہو یا مغربی… اور جو نہ مانے اُس کے لئے جزیہ ہے یا قتال… ہم زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بناتے مگر اسلام کے دشمنوں کو طاقتور بھی نہیں رہنے دیتے… اور کفر کو ایسا پُرکشش نہیں بننے دیتے کہ لوگ بھاگ بھاگ کر کافر بننے لگیں…یہ ہے اصل ترتیب جو قرآن پاک لیکر آیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس
مگر ہم آج اپنی نااہلی کی وجہ سے اس ترتیب سے محروم ہیں… ہم خود نکل پڑتے تو یوں ہر جگہ سے دھتکار کر نہ نکالے جاتے، ہم خود لڑ پڑتے تو یوں ہم پر لڑائیاں گرائی نہ جاتیں… ہم کلمہ کو جان پر رکھ کر آگے بڑھتے تو کلمہ خود ہمارے دل اورجان میں اُتر جاتا… اور زمین و آسمان کی ساری مخلوق ہماری نصرت کے لئے مسخر کر دی جاتی… یہ اصل ترتیب ان شاء اﷲ پھر لوٹے گی… مگر افسوس کہ آج ہم اس سے محروم ہیں

اِنَّا ﷲ وَاِنَّا اِلَیْہٖ رَاجِعُون…وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
جہاد پیچھے
وہ دیکھو! اُحد کے میدان میں حضرت آقا مدنیﷺ کا خون مبارک رخسار سے بہہ کر داڑھی مبارک کو سرخ کر رہا ہے… اس مقدس خون پر ہم سب کا خون فدا…اے مسلمانو! اس منظر کے بعد کیا جہاد کو کسی اوردلیل کی ضرورت ہے؟؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کیا یہ منظر سوچ کر بھی جہاد سمجھ میں نہیں آتا؟… یاد رکھیں!اسلام کے پہلے غزوہ کے بعد سے لیکر آج تک جہاد ایک دن کے لئے بھی نہیں رکا…ہاں!جس جہاد کو حضرت آقا مدنیﷺ نے اپنا لہو مبارک دیا ہے اُسے کوئی نہیں روک سکتا… اس لئے جہاد ہر زمانے میں جاری رہا… تاریخ کے اوراق اُسے محفوظ رکھ سکے یا نہیں… اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں… مجاہدین ہر دور میں موجود رہے… جہاد کی دعوت، جہاد کی تیاری، اور کارروائیوں کا تعاقب کہ جیسے ہی موقع ملے جنگ شروع… یہ ہیں جہاد کے جاری رہنے کی صورتیں… ہاں! کسی زمانے جہاد زیادہ وسیع اور طاقتور رہا اور کسی زمانے بہت کم مسلمان اس سعادت سے ہمکنار ہوئے… ہم تاریخ میں جھانکے بغیر اپنے زمانے پر آتے ہیں… اور اس میں پہلے اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ الحمدﷲ ہمارے زمانے میں جہاد فی سبیل اﷲ موجود ہے، ممکن ہے، میسر ہے، مؤثر ہے اور فاتح ہے…

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ وَالْحَمْدُﷲ رَبِّ الْعَالَمِیْن
مگر یہ جہاد ابھی آگے آگے نہیں، پیچھے پیچھے ہے… پیچھے کا مطلب یہ کہ آج جہاں بھی ظلم بھونکتا ہے، جہاد وہاں للکارتا ہواپہنچ جاتاہے… آج کل ظلم کا پاگل کتا وسطی افریقہ اور برما میں دانت دکھا رہا ہے… ان شاء اﷲ دنیا دیکھ لے گی کہ اُمت مسلمہ کی کلمے والی ماؤں کے حلال بیٹے… ضرور ان علاقوں میں جہاد فی سبیل اﷲ کی آسمانی بجلیاں بن کر گریں گے…

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

بچپن سے اب تک
ہم جب چھوٹے تھے تو اپنے بڑوں سے… اوراپنی مساجد میں یہ دعاء سنتے تھے:

’’یااﷲ! فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما‘‘

پھر جب تھوڑے بڑے ہوئے تو فلسطین کے ساتھ افغانستان بھی جڑ گیا…

’’یا اﷲ! فلسطین اور افغانستان کے مسلمانوں کی مدد فرما‘‘

پھر آگے چل کر اس دعاء کی فہرست میں ناموں کا اضافہ ہوتا چلا گیا…

بوسنیا، تاجکستان، کشمیر، چیچنیا… پھر عراق، شام، لیبیا اور اب وسطی افریقہ اور برما… فہرست طویل ہوتی جارہی ہے… اور اگر ہمیں حالات کا مکمل ادراک ہو تو یہ فہرست اور بھی لمبی ہوجائے… تھائی لینڈ، فلپائن،ایتھوپیا، صومالیہ، اریٹریا، سنکیانگ… اور معلوم نہیں کہاں کہاں کے کلمہ گو مسلمان مظلوم ہیں… مسلمان اگر واقعی سچا مسلمان ہو تو وہ نہ دعاء سے تھکتا ہے اور نہ جہاد سے اکتاتا ہے…

مسلمان کے دل میں کلمہ طیبہ:

لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ

کا تروتازہ درخت قائم ہوتا ہے… اور اس درخت کے بارے میں قرآن مجید کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ درخت ہر آن نئے پھل دیتا رہتا ہے…

اﷲ تعالیٰ کا مسلمانوں پر انعام دیکھیں کہ…دشمنان اسلام جہاں بھی ظلم کا نیا اڈہ کھولتے ہیں، انہیں وہاں چند ہی دن بعد جہاد کے تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے… اور پھر وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ… دہشت گرد آگئے، ارھابی آگئے، انتہا پسند آگئے… وہ دیکھو! کہاں کہاں سے آگئے…

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ

شکر ادا کریں
مجاہدین نہ آسمان سے گرتے ہیں اور نہ زمین سے اگتے ہیں… یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے جہاد کی مسلسل محنت کو جاری فرما دیا ہے… جہاد کی یہ مسلسل محنت ہر طرف اپنا رنگ دکھا رہی ہے… حیرانی اس پر ہوتی ہے کہ جہاد کی عالی شان محنت کرنے والے افراد ہر وقت بجھے بجھے اور پریشان نظر آتے ہیں… جبکہ جمہوریت وغیرہ کی لاحاصل اور فضول محنتوں میں خود کو کھپانے والے اپنی کامیابیوں پر ناز کرتے ہیں… حالانکہ جہاد کی محنت نے الحمدﷲ زمین کا رنگ اور اس کا نقشہ بدل دیا ہے… اور اب روزآنہ ہزاروں افراد کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہورہے ہیں… اور دنیا مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے…

جہادی محنت کرنے والے افراد اگرچہ اپنے تھانے کے ایس ایچ او کو فون کر کے… فخر محسوس نہیں کر سکتے… مگر ان کی مسلسل محنت ہی دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو عزت اور غلبے کے راستے پر لاتی ہے… تب وہ برائلر مرغی کی طرح مرنے کی بجائے شیر بن کر لڑتے اور جیتے ہیں… اور یہی مسلسل محنت دور دراز علاقوں تک جہادی محاذ کھلواتی ہے… جہادی محنت کا اصل بدلہ تو ان شاء اﷲ ’’جنت‘‘ ہے… مگر اس کے ثمرات دنیا میں بھی ہر طرف نظر آرہے ہیں… پھر مایوسی کیوں؟ پریشانی کیوں؟ عدم تحفظ جیسی فضول بات کیوں؟… کہاں شہادت کا شوق اور کہاں’’عدم تحفظ‘‘ جیسا بزدلانہ لفظ… ارے بھائیو! اگر تمہیں اپنی اس مبارک محنت کی حقیقت نظر آجائے تو پھر اپنی زندگی کے اس وقت سے نفرت ہونے لگے جو نیند اور گپ شپ میں ضائع ہو جاتا ہے… قرآن مجید کو دیکھو، حضرت آقا مدنیﷺ کے لہو مبارک کو دیکھو! اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھو… اور اس محنت کی قدر کرکے اس پر شکر اداکرو…

وَالْحَمْدُﷲ رَبِّ الْعَالَمِیْن، مَا شَاء اﷲُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
 لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭


 

Saturday, November 16, 2024

سیدہ آسیہ سے بہن جی عافیہ تک

سیدہ آسیہ سے بہن جی عافیہ تک

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 440)


اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں ہم سب کا تذکرہ موجود ہے…

ارشاد فرمایا

فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
ہم نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے

امریکہ کی جیل کے کسی تاریک سے سیل میں… میری اور آپ سب مسلمانوں کی پاکیزہ بہن عافیہ صدیقی… جب قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہوں گی تو انہیں کونسی آیات میں اپنا تذکرہ نظر آتاہو گا؟… دشمنوں کی قید میں قرآن مجید کی والہانہ تلاوت عجیب لذت بخش ہوتی ہے…

 

 سبحان اﷲ! قرآن مجید میں تو اﷲ تعالیٰ بولتے ہیں، جب قیدی قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کو سنتا ہے تو زخمی دل پر مرھم لگتا ہے… ہاں میں سب سے کٹ گیا مگر میراپیارا رب میرے ساتھ ہے میرا عظیم رب میرے پاس ہے… دو چاردن مشرکوں کی قید ہم نے بھی دیکھی، قرآن مجید کی بعض آیات پڑھتے وقت انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں… یہ دراصل اُن آیات کی خاص روشنی ہوتی ہے جو دل پر پڑتی ہے… انسان اُس وقت صرف اُس روشنی میں کھوجاتا ہے مگر چند دن یا چند سالوں کے بعد وہ اُن آیات کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے… ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بہن’’ عافیہ‘‘ جیل میں اکیلی جب تلاوت کرتی ہو گی تو اُس پر کون کون سی آیات چمکتی ہوں گی؟… ہاں بے شک بہت سی آیات! عافیہ بہن نے ایمان، عزم اور عزیمت کا جوراستہ اختیار کیا… اُس کا مقام بہت اونچا ہے… یقینا وہ قرآن مجید کی کئی آیات میں اپنا تذکرہ اور اپنا مقام پاتی ہوں گی… تب کتنے آنسو ٹپ ٹپ برستے ہوں گے… کان متوجہ ہوتے ہوں گے کہ

وَالْعادِیٰتِ ضَبْحًا
مسلمان مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپیں کب سنائی دیں گی… اور

وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء وَالْوِلْدَانِ…
پر دل بھر آتا ہوگا…

مگر میں سوچتا ہوں کہ بہن جی عافیہ جب… حضرت سیدہ آسیہ رضی اﷲ عنہا کا تذکرہ پڑھتی ہوں گی تو اُن پر قرآن مجید کے انوارات کس تیزی سے برستے ہوں گے…

 اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کی مثال کے طور پر… فرعون کی بیوی کو پیش فرماتے ہیں…

دیکھو!ایمان ہو تو ایسا… عزم ہو تو ایسا، قربانی ہو تو ایسی، شوق ہو تو ایسا، اور انجام ہو تو ایسا…

سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم

کیا اس زمانے کے فرعون کی قید میں ظلم سہتی ’’عافیہ‘‘ کو… پرانے زمانے کے فرعون کے مظالم سہتی ’’آسیہ‘‘ کے تذکرے سے سکون نہیں ملتا ہو گا…

امریکہ اور فرعون کے درمیان بہت سی مشابہتیں ہیں… قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے… اس کے حروف، الفاظ، اسماء اور زیر زبر تک میں بڑے بڑے راز اور بڑے بڑے نکتے پوشیدہ ہیں… فرعون کو بار بار ذکر فرمایا، بے کار ہر گز نہیں… بلکہ زمین پر فرعونوں نے بار بار آنا ہے… فرعون ایک شخص تھا مگر فرعونیت ایک سوچ ہے اور ایک مزاج ہے… آپ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں فرعون کا تذکرہ ہے اُن کو الگ کاغذ پر لکھ لیں…پھر انہیں ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ کر فرعون کی سوچ، فرعون کا مزاج، فرعون کا طرز عمل… اور فرعون کا طریقہ حکمرانی لکھ لیں… پھر امریکہ کو دیکھتے جائیں آپ حیران ہوں گے کہ نوے فیصد باتیں، پالیسیاں اور طریقہ کار بالکل ایک جیسا ہے…مجھے آج اپنی بہن جی عافیہ صدیقی کا تذکرہ کرنا ہے… اُن کو امریکہ کی قید میں گیارہ سال بیت گئے… اُن کی قید اور اسارت ہمارے دلوں پر ایک سلگتے انگارے جیسا زخم ہے… اس لئے میں امریکہ اور فرعون کے درمیان مشابہتوں کو نہیں گنواتا کہ بات دوسری طرف نکل جائے گی… کچھ لوگ امریکہ کو’’دجال اکبر‘‘ کہتے ہیں… یہ لوگ غلطی پر ہیں…

ممکن ہے امریکہ نے خود یہ سوچ ان لوگوں میں پھیلائی ہو کہ… وہ’’دجال اکبر‘‘ ہے… نہیں بالکل نہیں… وہ دجّالی فتنہ ضرور ہے اور چھوٹا موٹا دجال بھی اسے کہہ سکتے ہیں مگر وہ’’دجال اکبر‘‘ نہیں… دجّال اکبر کی سوچ اس لئے پھیلائی جاتی ہے تاکہ مسلمانوںکے ہاتھ پاؤں خوف سے ڈھیلے ہو جائیں… اور وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ یہ دجال اکبر ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے بس میں نہیں… اسے ختم کرنے کے لئے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام… اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں گے… اُن کے آنے تک ہم غلامی برداشت کریں…دجال کی ایک آنکھ والی تصویریں، خوف اور دہشت پھیلانے والی موویاں، سازشوں کے انکشاف کرنے والی خوف آلود کتابیں… یہ سب کچھ بالکل غلط بلکہ خود دشمنان اسلام کی چالیں ہیں… امریکہ اس زمانے کا فرعون ہے… فرعون کے پاس جادوگروں کی طاقت تھی… امریکہ کے پاس سائنسی ٹیکنالوجی ہے… فرعون کے جادوگر لوگوں کوہیبت زدہ کر دیتے تھے…

وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَآء وْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
امریکہ کی ٹیکنالوجی بھی بالکل وہی اثردکھاتی ہے… مگر ایک خشک لاٹھی نے اس جادو کا رعب توڑ دیا… جس طرح آج کے لاٹھی بردار مجاہدین اور فدائیوں نے امریکہ کی جنگی ٹیکنالوجی کا رعب خاک میں ملا دیا ہے… فرعون خاندانی منصوبہ بندی کا بانی تھا… مرد کم ہوں عورتیں زیادہ تو قوم کو غلام بنانا آسان… آج مسلمان ممالک میں اسی فرعونی تھیوری پر کام جاری ہے… فرعون کے پاس جنگی طاقت تھی، افرادی قوت تھی اور لوگوں کو اپنا غلام بنانے کا جنون… اس کی طاقت اپنے زمانے کے اعتبار سے امریکہ سے زیادہ تھی… کیونکہ اُس سے لڑنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا… بات دور نکل رہی ہے… خلاصہ بس اتنا ہے کہ امریکہ ختم نہیں ہوگا… جس طرح فرعون کا جسم آج تک موجود ہے… مگر اس کی فرعونیت ختم ہو گئی… اب وہ ایک بے جان لاشہ ہے… امریکہ بھی روئے زمین کے ایک خطے کا نام ہے… یہ خطہ موجود رہے گا مگر امریکہ کی امریکیت ختم ہو جائے گی… اس کے اندر غلام قوموں کا طوفان اٹھے گا… اور دوسری طرف سمندر اس پر چڑھ دوڑیںگے… اور یہ سب اس وجہ سے ہوگا کہ امریکہ کی حکومت اُس کے ’’رعب‘‘ پر قائم ہے… اسی رعب کو قائم رکھنے کے لئے وہ مسلمانوں میں اپنا خوف پھیلاتا ہے… مگر مجاہدین نے اس کے اس رعب کو پنکچر کر دیا ہے… یہ رعب جیسے جیسے گھٹتا جائے گا امریکہ میں موجود قومیں اپنے حقوق کے لئے سراٹھاتی چلی جائیں گی… یہ اچھاوقت ہم دیکھیں گے یا ہمارے بعد والی نسل… یااُن کے بعد والی نسل یہ تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے… ہم بہرحال اُس زمانے میں ہیں جب امریکہ اس زمین کے فرعونوں میں سے ایک بڑا فرعون ہے… اور ہم نبی الملحمہ حضرت محمدﷺ کے اُمتی ہونے کے ناطے… اس فرعون کے مقابلے پر کھڑے ہیں… اور ان شاء اللہ اس مقابلہ میں مسلمان ہی کامیاب اور سرفراز ہوں گے… ہماری مظلوم اور عظیم بہن عافیہ صدیقی… اس زمانے میں حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کی مثال ہیں… آسیہ فرعون کے گھر میں بہت راحت سے تھیں… بہت بڑا محل تھا ہزاروں باندیاں اورغلام خدمت پر مامور تھے… محل کے اندر پوری دنیا کی نعمتیں جمع تھیں… حتی کہ دریا کا رخ موڑ کر محل میں نہریں اور ساحل بنائے گئے تھے… ان سب نعمتوں کی وہ تن تنہا مالک تھیں… مگر پھر اچانک یہی ’’محل ‘‘اُن کے لئے قید خانہ اور عقوبت خانہ بن گیا… کیونکہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ… لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ…

فرعون غصے سے پاگل ہو گیا… وہ خود کو ربّ اور سپر پاور کہلواتا تھا اور دنیا کو اپنے قدموں پر جھکاتا تھا… اس کی تویہ کوشش تھی کہ آسمانوں پر بھی اس کی حکومت قائم ہوجائے… اس نے اس کام کے لئے ایک بڑے ماہر تعمیر سائنسدان کی خدمات حاصل کیں… علماء لغت نے ’’ھامان‘‘ کے لفظ کی تحقیق کی ہے … ھامان جو فرعون کا وزیر تھا… ھامان کہتے ہیں ارضیات، تعمیرات اور سائنس کے ماہر کو… امریکہ بھی چاند کی طرف، مریخ کی طرف اور کائنات کے ذرہ اولیٰ کی طرف چھلانگیں لگا رہا ہے… کیونکہ زمین عجیب جگہ ہے… یہاں ہر مکھی اور مچھر کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ بس وہی سب کچھ ہے… اور اب اُسے خدائی کے رتبے تک (نعوذباللہ) پہنچ جانا چاہئے…یہی شبہ فرعون کو تھا یہی شبہ تاتاریوں کو تھا… یہی شبہ سوویت یونین کو تھا اور آج یہی شبہ امریکہ کو ہے… اور انڈیا بھی کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی شائد کچھ بن جائے… اللہ تعالیٰ کی تقدیر ان بیو قوفوں کی چھلانگیں دیکھ کر مسکراتی ہے… آسیہ کے لئے کفر پر رہنے میں ظاہری فائدہ ہی فائدہ تھا… اور ہر طرح سے عیش ہی عیش تھی… آج کل کئی لوگ بہن جی عافیہ کا موازنہ’’ملالہ‘‘ کے ساتھ کرنے بیٹھ جاتے ہیں… توبہ، توبہ، توبہ… ان دونوں میں نسبت ہی کیا ہے… ایک ایمان کی علامت ہے تو دوسری نفاق کا سمبل… ایک آزادی کا استعارہ ہے تو دوسری غلامی کا نشان… ایک ایمان و عزم کی خوشبو ہے تو دوسری گندے ڈالروں اور ناپاک ایوارڈوں سے لت پت… ایک غیرت اور حیاء کا پاکیزہ چشمہ ہے تو دوسری پوری امت مسلمہ کے لئے شرم اور عار کا باعث… ایک علم، تقویٰ، بہادری اور قربانی کاپیکر ہے تو دوسری جہالت، شرارت، حرص اور لالچ کا مجّسمہ… ایک وہ ہے کہ جس کا نام سنتے ہی گناہگاروں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں… اور دوسری وہ ہے جس کا نام مسلمانوں کو گالی اور طعنہ دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے… ایک وہ ہے کہ جس کی پاکیزہ عقیدت نے کتنے بدکار مسلمانوں کو… متقی مجاہد اور جانباز فدائی بنا دیا… اور دوسری وہ ہے کہ جس کے نام پر نفاق اور فسق پھیلایا جارہا ہے…

آج ملالہ کو جو کچھ ملا ہواہے، سیدہ آسیہ کو اس سے ہزاروں گنا زیادہ نعمتیں ملی ہوئی تھیں… وہ جب اُن آسائشوں میں تھیں تو کچھ بھی نہ تھیں… مگر جب انہوں نے اُن سب راحتوں اور عیش و آرام کو چھوڑا تو قرآن مجید کا کامیاب کردار بن گئیں… اب جس مسلمان نے قرآن مجید میں یہ سب کچھ پڑھ رکھا ہو وہ کس طرح سے ملالہ کو کامیاب اور عافیہ کو نعوذباللہ ناکام کہہ سکتا ہے؟… ملالہ جو کچھ کمارہی ہے یہ سب یہیں رہ جائے گا…اور عافیہ جو کچھ بنا رہی ہے وہ قیامت تک چلے گا… دیکھ لینا ملالہ تاریخ کے کوڑہ دان میں گم ہوجائے گی مگر عافیہ کے نام سے تاریخ ہمیشہ زندگی پائے گی… عافیہ بہن کا فرعون، امریکہ ہے… وہ پہلے وہاں گئیں تو آرام و راحت میں تھیں… تعلیم حاصل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری پائی… بڑی پرکشش ملازمتوں کی آفریں آئیں…مگر جب عافیہ نے پکارا

لاالہ الااللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ

تو امریکہ غصہ سے پاگل ہو گیا… میرے ہاں پڑھنے والی،میری زمین پر پلنے والی ایک عورت… مجاہدین کی حامی، جہاد کی دیوانی، شہادت کی متوالی اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کی خدائی کاانکار کرنے والی؟… بس فرعون کی آنکھیں بدل گئیں… وہی امریکہ جو عافیہ کے لئے محل کی طرح تھا… آج اس کا قیدخانہ ہے… اور اس قید خانے میں رات کے آخری پہر میں ایک آواز ہلکی ہلکی… مگر گہری گہری، آنسوؤں میں بھیگی بھیگی…اٹھتی ہے

رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃ

اے میرے رب اپنے پاس جنت میں میرے لئے ایک گھر بنا دیجئے…

وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ
 اور مجھے فرعون اور اس کے کرتوتوں سے نجات عطاء فرمادیجئے

وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
اور مجھے ظالموں سے نجات عطاء فرما دیجئے

فرعون نے سیدہ آسیہ پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے… وہ چاہتا تھا کہ یہ مجھے واپس مل جائے… یہ میرے خلاف سرکشی چھوڑ دے… یہ میری بن جائے… مگر سیدہ آسیہ… اپنے رب کی بن چکی تھی… وہ جسم اور نفس کے تقاضوں سے بہت اونچی جا چکی تھی… اُس کی نظر میں دنیا اور اس کی ساری دولت ایک حقیرقطرے جیسی ہو چکی تھی… ہاں آسیہ

لاالہ الااللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ

 کے بلند مقام پر جا بیٹھی تھیں… ارے جو مٹھائیوں اور ٹافیوں کی پانچسو کمپنیوں کا مالک بن چکا ہے تو کوئی بیو قوف اُسے ایک ٹافی دکھا کر… اُن کمپنیوں کو چھوڑ دینے پر راضی کر سکتا ہے؟… جو اصل عیش دیکھ چکا ہو اُسے دنیا کے عیش بہت ہی حقیر لگتے ہیں… فرعون کا تشدد بڑھتا گیا، غصہ بڑھتاگیا… سیدہ آسیہ کی آزمائش بھی بڑھتی گئی… وہ بڑے اونچے ذوق والی اور کامل ایمان والی خاتون تھیں… انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اصل بدلہ مانگا… فرعون نے حکم دیا کہ کھال اتارنا شروع کر دو… تب فرشتوں نے جنت کا محل بی بی آسیہ کے سامنے کردیا… ڈاکٹرایک ٹیکہ لگا کر مریض کوایسا بے ہوش اور مدہوش کر دیتے ہیں کہ اُسے آپریشن کی چیر پھاڑ کا درد نہیں ہوتا… ارے جو جنت دیکھ رہا ہو اس کی مدہوشی کا کیا عالم ہوگا… کھال اترنے کا ذرہ برابر درد نہ ہوا… اور زمین تا آسمان ان کی روح کی خوشبو ایسی پھیلی کہ… کیا پوچھنے…

اور قسمت کا عروج دیکھو! دنیا میں قربانی دی، چند منٹ لگے، اور بدلہ اتنااونچا کہ جنت میں رسول نبی کریمﷺ کی زوجہ بن کر رہیں گی…

سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم…

ہاں بے شک جتنی بڑی قربانی اتنا بڑا مقام…

آسیہ رضی اللہ عنہا کامیاب… ہماری بہن جی’’عافیہ‘‘ بھی ان شاء اللہ کامیاب… وہ سیدہ آسیہ کے راستے پر جارہی ہیں… انہوں نے ہمارے زمانے کی عورتوں کی لاج رکھ لی ہے کہ… امت مسلمہ کی بیٹیاں کیسی بہادر اور کیسی غیرت مند ہوتی ہیں… بعض لوگ خبروں میں اڑاتے ہیں کہ نعوذباللہ عافیہ بہن کی عصمت دری کی گئی… نہیں، نہیں، ہرگز نہیں… میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی عظیم خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لئے خاص ملائکہ اتارے جاتے ہیں… وہ لاکھ دشمنوں کے درمیان ہوں… اُن پر اور تو ہر ستم ہو سکتا ہے مگر ان کی پاکیزگی اور عفت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھ سکتا… لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ عافیہ بہن جب تک دشمنوں کی قید میں ہیں… پوری اُمت مسلمہ خود کو’’بے آبرو‘‘ محسوس کر رہی ہے…

یا اللہ بے شمار جانیں حاضر ہیں… غیب سے نصرت فرما… بہن جی عافیہ کو باعزت رہائی عطاء فرما…

آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

 لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭


 

Wednesday, November 13, 2024

مقامِ عبرت

 

مقامِ عبرت

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 438)


اﷲ تعالیٰ ہم سب کو تمام روحانی اور جسمانی امراض سے شفاء عطاء فرمائے…

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَ الْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُق
بُرے نام سے اللہ تعالیٰ کی پناہ

دنیا اور مال کے لالچی کو حضور اقدسﷺ نے معلوم ہے کیا نام دیا ہے؟

’’عبدالدرھم، عبدالدینار‘‘
درہم اور دینار کا بندہ اور غلام… اور آپﷺ نے اس پر لعنت فرمائی ہے:

 لُعِنَ عبدالدینار، لعن عبدالدرھم(ترمذی)
لعنت کے معنیٰ ہیں… اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہونا… دراصل لالچ اورایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے…لالچ ہو گی تو ایمان دل سے روٹھ جائے گا… اور جب دل میں ایمان نہیں ہوگا تو ایسے دل پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہوگی…اسی لئے کہتے ہیں کہ’’حبّ دنیا‘‘ہی وہ چیز ہے جس نے جہنم کو آباد کرنا ہے… حضرت آقا مدنیﷺ نے واضح الفاظ میں فرمادیاکہ!!

الا ان الدنیا ملعونۃ(ترمذی)
خوب اچھی طرح سن لو کہ دنیا ملعون ہے… ہاں دنیا میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو وہ رحمت والا ہے… مگر انسان بہت تیزی سے حبّ دنیا کی طرف گرتا ہے…

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا
ہاں تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو… حالانکہ آخرت بہترین اور باقی رہنے والی ہے… ہم سب کو بہت دعاء اور بہت فکر کرنی چاہئے کہ یہ بُرا لقب ہمارا نہ ہو

عبدالدینار، عبدالدرھم
بلکہ ہمارا نام، ہمارا لقب اور ہمارا مقام یہ ہونا چاہئے

عبداللہ، عبدالرحمن… جی ہاں! ہم دنیا اور مال کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں…

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُک
ہم سب کہہ دیں…

یَا رَبِّ اَنَا عَبْدُک…
یا اللہ میں آپ کا بندہ ہوں، میں آپ کا غلام ہوں… حبّ دنیا سے توبہ کرتا ہوں، حبّ دنیا سے آپ کی پناہ مانگتاہوں…

بے شک دنیاجارہی ہے…بے شک آخرت آرہی ہے… حدیث شریف میں آیا ہے کہ کچھ لوگ دنیا کے بیٹے ہیں… اور کچھ لوگ آخرت کے بیٹے…

کچھ دنیا سے پیار کرتے ہیں… اور کچھ آخرت سے محبت رکھتے ہیں… آج سے سو سال پہلے والے سب لوگ دنیا سے جا چکے… کہاں گئے اُن کے اموال؟ کہاں گئے اُن کے عہدے اور کہاں گئے اُن کے عیش و آرام؟… دنیا کے بیٹے! اپنی ماں سے محروم ہوگئے… جبکہ آخرت کے بیٹے اپنی پیاری ماں کی گود میں جا بسے…

نعوذ باللّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ سے اختلاف
’’حبّ دنیا‘‘ کے نقصانات بے شمار ہیں… ایک بڑا اور خطرناک نقصان یہ کہ دنیا سے محبت رکھنے والے اور اپنے دل میں دنیا کی عظمت رکھنے والے لوگ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو حقیر اور ذلیل قرار دیا… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو مچھر کے پر سے بھی زیادہ بے وقعت قرار دیا… قرآن مجید میں جابجا اُن لوگوں کی مذمت فرمائی جو دنیا کو اپنا مقصود اور مطلوب بناتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار سمجھایا کہ دنیا کی زندگی کے دھوکے میں نہ پڑو، دنیا کی چمک دمک کی طرف نہ دیکھو… کفار کی دنیوی ترقی کی طرف نہ دیکھو… مگرہم ان تمام فرامین کو پس پشت ڈال کر دنیا سے محبت کریں… دنیا کی مالداری اور چمک دمک کو کامیابی سمجھیں… اور بار بار کفار کے حوالے دیں کہ وہ ہم سے کتنا آگے نکل گئے… وہ چاند پر پہنچ گئے، وہ کامیاب ہوگئے… کیا یہ اپنے رب تعالیٰ سے اختلاف کرنا نہیں ہے؟ یادرکھیں! دنیا کی محبت مسلمانوں کے لئے دنیا اور آخرت کی’’ذلت‘‘ ہے… اسی کو حضرت آقا مدنیﷺ نے ’’وھن‘‘ کے نام سے بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ… جب تم’’وھن‘‘ میں مبتلا ہو جاؤ گے… یعنی دنیا کی محبت میں جا پڑو گے اور دنیا کو اپنا مقصود بنالوگے تو ایسے ذلیل ہو جاؤگے کہ دنیا کی دوسری قومیں تم سے کھیلیں گی اور تمہیں نوچ نوچ کر کھائیں گی… مسلمانوں کی عزت اور غلبہ’’جہاد‘‘ میں ہے اور جہاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ’’ حبّ دنیا‘‘ ہے… دنیا کی محبت ایک مسلمان کو جہاد میں نہیں آنے دیتی… کیونکہ جہاد میں ہجرت ہے، مال کی قربانی ہے، جان کی قربانی ہے… اور جب کوئی مسلمان’’حبّ دنیا‘‘ کی پہلی رکاوٹ توڑ کر جہاد میں آجاتا ہے تو پھر’’حبّ دنیا‘‘ کا دوسرا گڑھا منہ پھاڑ دیتا ہے… مال کا شوق، عہدے کا شوق، ناموری اور شہرت کا شوق … تب بہت سے لوگ اس میں جا گرتے ہیں… صحیح حدیث میں وہ افراد جن کے ذریعہ سب سے پہلے جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا ان میں’’شہید‘‘ بھی ہے… جہاد میں جان لٹانے والا شہید… مگر اس کے دل پر دنیا میں بہادرلقب، ناموری اور شہرت کی نیت چھائی ہو گی… وہ بھی ناکام ہو جائے گا… پس جہاد جیسے عظیم فریضے پر آنے کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اور پھر جہاد میں آنے کے بعد اپنے جہاد کی قبولیت کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اسی لئے تو حضرت حکیم الامتؒ کی تحقیق کے مطابق’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ ہی ’’جہاد اکبر‘‘ ہے… کیونکہ اس میں مجاہدہ ہی مجاہدہ ہے… ایک مجاہدے کے بعد دوسرا مجاہدہ… اور ساتھ جان و مال کی قربانی بھی…

مقام عبرت
الحمدللہ آج کے زمانے میں بھی سچے مسلمان موجود ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت موجود رہیں گے…

سچے مسلمان کی ایک بڑی نشانی!!

’’حضرت آقا مدنیﷺ سے محبت رکھنا ہے‘‘

یہ ایمان کی لازمی علامت ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جو حضرت آقا مدنیﷺ کی عزت، حرمت اور ناموس پر اپنی جان کے ٹکڑے کروانا اپنی سعادت سمجھتے ہیں… ایسے سچے مؤمن بھی موجود ہیں جو حضرت محمدﷺ کی محبت میں اپنا سارا مال خرچ کر سکتے ہیں… اور ایسے بھی موجود ہیں کہ خواب میں حضرت آقا مدنیﷺ کی ایک مبارک جھلک دیکھنے کے لئے طرح طرح کے جتن، وظیفے اور عمل کرتے ہیں اور بڑے بڑے صدقات دیتے ہیں… بالاکوٹ کے ایک مقبول اللہ والے بزرگ حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نوراللہ مرقدہ سے ملنے تشریف لائے… اور یہ کہہ کر بلک بلک کررونے لگے کہ حضرت! مجھے حضور اقدسﷺ کی خواب میں زیارت نہیں ہوتی… حضرت نے انہیں یہ درود شریف بتایا

صَلّٰی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّی…
الحمدللہ جمعۃ المبارک کے درود سلام والے’’مقابلہ حسن‘‘ میں شریک کئی افراد نے اطلاع دی ہے کہ انہیں اس مقابلہ کے دوران خواب میں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جنہیں اگر کہا جائے کہ زمانہ سمیٹ کر آپ کو حضور اقدسﷺ کے دور میں لے جایا جائے گا اور آپ صرف ایک نماز رسول اقدسﷺ کی اقتداء میں ادا کر سکیں گے… مگر اس کے بدلے آپ کو اپنا تمام مال دینا ہوگا اور اس نماز کے فوراً بعد موت کو قبول کرنا ہو گا تو وہ فوراً راضی ہو جائیں گے… مگر اب ایک بھیانک منظر دیکھیں… یہ منظر اگر ہمیں یاد رہے تو ہمیں’’حبّ دنیا‘‘ سے انتہائی نفرت ہو جائے… کچھ اشخاص تھے جن کا شمار رسول کریمﷺ کے میزبان قبیلے’’انصار‘‘ میں ہوتا تھا… انصار کے فضائل آپ نے سن رکھے ہوں گے… یہ لوگ دن رات جنت سے بھی زیادہ لذیذ سعادتوں کے قریب تھے… وہ جب چاہتے حضرت آقامدنیﷺ کی صحبت میں حاضر ہوتے… یہ روزآنہ پانچ نمازیں رسول کریمﷺ کی اقتداء میں ادا کرتے تھے… ان کے پاس موقع تھا کہ جب چاہتے رسول اقدسﷺ سے اپنے لئے استغفار اور دعاء کرواتے… ان کی آنکھیں ماہتاب نبوت کو براہ راست دیکھتی تھیں… اور اُن کے کان حضرت آقا مدنیﷺ کی پُراثر شیریں آواز مبارک کو سنتے تھے… یہ لوگ ہر طرح سے ایمانی، دینی اور روحانی نعمتوں کے قریب تھے… وہ چاہتے تو احسان مانتے اور قدر کرتے… مگر’’حبّ دنیا‘‘ کا کینسر اُن کے دلوں کو مسخ کر چکا تھا… ہم جب سورۃ التوبہ کی اُن آیات پر پہنچتے ہیں جہاں ان ظالموں کی ایک بڑی گستاخی کا تذکرہ ہے تو دل خوف سے کانپنے لگتا ہے…

یا اللہ رحم! کیا کوئی انسان مال اور دنیا کی لالچ میں اتنا بھی گر سکتا ہے؟ ہوا یہ کہ حضرت آقا مدنیﷺ کی خدمت اقدس میں کچھ مال آیا… آپﷺ نے وہ تقسیم فرما دیا یہ ظالم افراد بھی ان میں شامل تھے جنہیں مال ملا… مگر وہ جتنا چاہتے تھے اتنا نہ ملا پس اُن کے دل کا حرص اور اندر کا نفاق کالے سانپ کی طرح سر اٹھا کر پھنکارنے لگا…

یہ گندے منہ بنا کر مجلس سے اٹھے اور فوراً اُن افراد کو جمع کرکے جو ان بد نصیبوں کی بات سنتے تھے… غیبت کاناپاک بازارکھول کر بیٹھ گئے… اور غیبت بھی کس کی؟ کہتے ہوئے زبان لرزتی ہے… غیبت اور وہ بھی حضرت آقا مدنیﷺ کی اور الزام یہ کہ مال کی تقسیم میں انصاف نہیں ہوتا… اور نعوذ باللہ حضور اقدسﷺ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق مال تقسیم نہیں فرماتے

استغفراللہ، استغفراللہ، استغفراللہ

اندازہ لگائیں، دنیا کی لالچ اور مال کی محبت انسان کو کتنا ذلیل اور کتنا کمینہ بنادیتی ہے… ایک طرف وہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام تھے… جو حضرت آقا مدنی ﷺ کے حکم پر جان، مال، گھر، وطن سب کچھ قربان کر رہے تھے…اور ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ ہمیں مزید جان و مال لگانے کا موقع ملے… اور دوسری طرف یہ بدنصیب تھے جن کو حضرت آقامدنیﷺ نے خود مال عطاء فرمایا، مگر اُن کے دل کی حرص کم نہ ہوئی… بے شک مال کی محبت اوردنیا کی محبت انسان کو اندھا، بہرہ اور محروم بنا دیتی ہے…

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الْوَھْنِ وَالْحِرْمَان
تجربہ کر لیں
انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب’’حبّ دنیا‘‘ کی بیماری کا شکار ہوا… اور حبّ دنیا کی بیماری بہت خطرناک اور بڑی وسیع ہے… نشے میں مدہوش شخص کو یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ نشے میں ہے…

حضرت یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں:

دنیا شیطان کی شراب ہے، پس جو اس شراب کے نشے میں آگیا اسے قبر میں جا کر ہی ہوش آئے گا…

ہاں دوصورتیں ہیں… ایک یہ کہ انسان قبرستان جائے اور مردوں کے پاس بیٹھ کر غور وفکر کرے…یا اُن لوگوں کی صحبت میں جائے جو حبّ دنیا سے دور ہیں…

یہاں چند باتیں ضروری ہیں:

۱۔  ہم خود کو حبّ دنیا سے محفوظ نہ سمجھیں

۲۔ ہم دوسروں کو نہ دیکھیں کہ کون حبّ دنیا کا مریض ہے؟ ایک تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے… اوردوسرا یہ کہ حبّ دنیا ایک چھپی ہوئی بیماری ہے کوئی بھی کسی کے بارے میں درست فیصلہ نہیں دے سکتا… ایک شخص دس روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں’’زاہد‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے… اور دوسرا دو روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں’’حریص‘‘ شمار ہوتا ہے… وجہ یہ ہے کہ اس آدمی کی بھوک اور صحت پندرہ روٹیاں کھانے کی ہے وہ دس کھاتا ہے اورپانچ صدقہ کرتا ہے… اور دل میں حرص نہیں رکھتا… جبکہ دوسرے کی بھوک اور صحت ایک روٹی کی ہے مگر وہ دوسری حرص کی وجہ سے پیٹ میں ٹھونس لیتا ہے… اکثر مالدار حبّ دنیا کے مریض ہوتے ہیں لیکن ایسے مالدار بھی ہیں جن کے پاس بہت مال ہے مگر وہ حبّ دنیا سے محفوظ ہیں… اور ایسے غریب بھی ہیں جن کے پاس دنیا نہیں مگر وہ حبّ دنیا میں دنیا داروں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں… اس لئے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں…

۳۔ کسی بڑے سے بڑے آدمی کے حرام کھانے سے وہ حرام ہمارے لئے حلال نہیں ہوجاتا… عالم، بزرگ، مجاہد ، خطیب … سب انسان ہیں اور سب پر حبّ دنیا کا حملہ ہو سکتا ہے… اب اُن کی حبّ دنیا کو دلیل بنا کر اپنے لئے اس مرض کو جائزسمجھنا ایک بڑا خسارہ ہے… شیطان ایک انسان کو پہلے اس بات پر لاتا ہے کہ فلاں اتنا کھا گیا، فلاں اتنا لوٹ گیا… وہ بار بار مال میں خیانت کے تذکرے زباں پر لاکر پھریہ ترغیب دیتا ہے کہ… جب دوسرے لوگ حرام کھا رہے ہیں تو تم بھی تھوڑا سا کھالو، جب اتنے بڑے لوگ باز نہیں آتے تو تمہیں تقویٰ کی کیا ضرورت ہے؟

 ایسے حالات میں خود کو سنبھالنا چاہئے کہ ہر شخص سے خود اس کی اپنی ذات کا سؤال ہوگا… مجھے اپنی حالت درست کرنی چاہئے کیونکہ میں نے اکیلے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے…

۴۔ حبّ دنیا کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ…دل میں مال کی عظمت ایسی آجائے کہ انسان کو صرف مالدار لوگ ہی اچھے لگتے ہوں اور غریبوں مسکینوں سے اسے گھن آتی ہو… یہ وہ مقام ہے جہاں سے آدمی کفر اورنفاق کی طرف گر سکتا ہے… کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کفار کو زیادہ دولت اورعیش دیتے ہیں… اورقرآن مجید کی سورہ الزخرف میں تو یہاں تک سمجھایا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو اور زیادہ مال دیتا یہاں تک کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں تک سونے چاندی کی ہو جاتیں…

۵۔ ہم اس بات کا درد لیکر کہ واقعی ہمارے اندر یہ موذی مرض… ’’حبّ دنیا‘‘ موجود ہے دو رکعت نماز ادا کریں… اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں کہ وہ ہمیں اس مرض سے نجات عطاء فرمائے… خوب رو رو کر دعاء کرنے کے بعد ہم یہ یقین باندھ لیں کہ آج مغرب تک میں نے ضرور مرجانا ہے … پس ساری زندگی خراب کی اب چندگھنٹے پورے اخلاص سے آخرت کی دائمی زندگی کی تیاری کرلوں… پھر مغرب تک کلمہ طیبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور دائیں بائیں کچھ توجہ نہ کریں… مغرب کے وقت موت آگئی تو اچھی ہوگی اور موت نہ آئی تو ہم اپنے دل کو دیکھیں گے کہ کئی بڑے بڑے بوجھ اتر گئے… پہاڑوں جیسے کئی بھاری مسائل حل ہو گئے اور بہت سی پریشانیاں دور ہو گئیں… دراصل دنیا کی محبت ہی وہ بوجھ ہے جو ہمیں مایوس اورویران کر دیتا ہے…

مقامات
کچھ عرصہ پہلے اچانک یہ خیال آیا کہ… رنگ و نور کے مضامین کا عنوان’’میم‘‘ سے شروع کیا جائے… ہمارے محبوب آقا حضرت محمدﷺ کا اسم گرامی’’ میم‘‘ سے شروع ہوتا ہے… ارادہ تھا کہ چالیس مضامین’’میم‘‘ والے عنوان سے آجائیں… مگر الحمدللہ برکت ہو گئی رنگ و نور کی ساتویں جلد میں بھی کئی مضامین’’میم‘‘ والے آگئے… اور اس کے بعد یہ ساٹھواں مضمون بھی… اسی اہتمام کے ساتھ آرہا ہے…یہ بس ایک ذوق تھا اور ایک جنون… اور کچھ بھی نہیں… عشق کا دعویٰ نہیں مگر خواہش بہت ہے…

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم
اب ان ساٹھ مضامین کی کتاب تیار ہو رہی ہے… اوریہ اس کا آخری مضمون ہے اورکتاب کا نام ہے’’مقامات‘‘… اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور نافع بنائے…آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
 لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭


Sunday, November 10, 2024

اسلام اور جہاد کی فتح

اسلام اور جہاد کی فتح

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 448)


اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے سچے ہیں…بالکل سچے،بالکل پکّے…ان وعدوں کے بارے میں شک کرنا محرومی ہے… یا اللہ ہمیں اپنے وعدوں پر ایمان اور یقین نصیب فرما…آمین

تاریخ کی طویل جنگ
ایک طرف دنیا کی بظاہر سب سے بڑی قوت تھی…اور یہ قوت بھی اکیلی نہیں…اس کے ساتھ دنیا کے تین درجن اور ممالک بھی تھے…جبکہ دوسری طرف اکیلی امارت اسلامیہ افغانستان…جی ہاں طالبان…یہ جنگ چودہ سال سے جاری ہے…چودہ سال کی اس لڑائی کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟…

آپ نے خبروں میں پڑھ لیا ہو گا

’’امریکہ نے اپنے ایک فوجی کے بدلے پانچ طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے‘‘

سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم…اللہ اکبر کبیرا

یہ ہے اسلام کی طاقت اور یہ ہے جہاد کی قوت…بظاہر تو یہ لگتا تھا کہ ’’طالبان‘‘ چودہ سال تو دور کی بات چودہ دن بھی مقابلہ نہیں کر سکیں گے…کونسا اسلحہ ہے جو اُن کے خلاف استعمال نہیں ہوا…اور کونسی سازش ہے جو اُن کے خلاف نہیں اُٹھائی گئی…دنیا بھر کے جنگی ماہرین…اور بڑے بڑے جرنیل ہر آئے دن نئے نئے پینترے بدل کر جنگ بھڑکاتے رہے،تدبیریں رچاتے رہے…اور سر کھپاتے رہے…سمندروں میں پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے بحری بیڑے  …  پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے تاک کر نشانہ لگانے والے جنگی جہاز…لمحوں اور ذروں کو شمار کر کے اپنے ہدف کو تہس نہس کرنے والے کروز میزائل…میلوں تک ہر چیز کو بھسم کرنے والے ڈیزی کٹر بم…فضاؤں میں راج کرنے والے نگران مصنوعی سیارچے…ہزاروں میٹر کی بلندی پر قائم پیٹرول اسٹیشن طیارے…اپنی مہارت پر ناز کرنے والے خفیہ ادارے…ملکوں کی بساطیں لپیٹنے والے جاسوسی ماہرین…اور وحشی جسم رکھنے والے کمانڈوز…یہ سب استعمال ہوئے اور ناکام ہو گئے…ایمان والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ تھا جو الحمد للہ پورا ہوا…اور چودہ سال کی جنگ سہنے والوں کو ایسی طاقت بخش گیا کہ انہوں نے ایک کے بدلے اپنے پانچ رہنما آزاد کروالئے…

سبحان اللہ وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم…اللہ اکبر کبیرا

فتح کے اس موقعہ پر کس کس کو مبارکباد دی جائے…کس کس پیارے فدائی کا تذکرہ مہکایا جائے…قرآن پاک کی کونسی کونسی آیات سنائی جائیں…بہت سی روشن آیات آنکھوں کے سامنے آتی ہیں اور دلنشین انداز سے مسکراتی ہیں…رب کعبہ کی قسم وہ ہو گیا جو کسی دشمن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا…غامدی کے ایک شاگرد نے موجودہ افغان جہاد کے آغاز  میں قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا (نعوذباللہ) مذاق اڑایا تھا … غامدی اور اس کے پرستاروں کی نظر امریکہ کی طاقت پر تھی…وہ نیٹو کی قوت پر توکل کر کے بار بار لکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب دنیا میں طالبان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی…وہ ’’بش‘‘ کو سلامیاں پیش کر رہے تھے کہ جلد ان فسادی مجاہدین کو مٹا دو…مگر بش خود مٹ گیا اور اب ابامہ جانے کو ہے…اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اُحد میں زخم کھانے والو! سست نہ پڑنا،غم میں نہ ڈوبنا، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان پر رہے…

غامدی کے شاگردوں نے اس آیت مبارکہ کو بار بار لکھا اور مذاق اڑایا…آج وہ شرم سے کیوں نہیں ڈوب مرتے؟…مگر طاغوت کے پجاریوں کو شرم کہاں؟…سبحان اللہ! اسلام کی شان دیکھیں،جہاد کی زندگی دیکھیں…موجودہ افغان جہاد شروع ہوا تو  ’’غزوہ احد‘‘ جیسے مناظر تھے…ہر طرف شہداء کے ٹکڑے، زخمیوں کی آہیں…دربدر بھٹکتے مہاجرین کے قافلے…اور غموں کی برسات… اُن دنوں تو اچھے خاصے لوگ بھی دل ہار گئے تھے… یہی شعبان تھا اور پھر رمضان…افغانستان پر طیارے آگ انڈیل رہے تھے…مجاہدین کے خط اور محاذ ایک ایک کر کے ٹوٹ رہے تھے…مجاہدین کی عورتیں اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر صحراؤں اور پہاڑوں میں غم اور حیرت کا مجسمہ بنی آسمان کو تک رہی تھیں…طیاروں کی کارپٹ بمباری سے قافلوں کے قافلے خون میں ڈوب رہے تھے … شمالی اتحاد کا سیلاب کابل پر چھا چکا تھا…معصوم بچے ماؤں کی گود میں بھوکے پیاسے مر رہے تھے… مغربی میڈیا خونخوار شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا … اور مجاہدین کے رہنماؤں کا پتا نہیں چلتا تھا کہ کہاں چلے گئے…مجھے آج بھی ان دنوں کے بعض مناظر یاد آتے ہیں تو دل پر غم کی ضربیں لگتی ہیں…غزوہ احد کے بارے میں رب العالمین نے خود فرمایا:

فَاَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ
کہ تم پر غموں کی بارش ہو چلی تھی…ایک غم پر دوسرا غم اور دوسرے غم پر تیسرا غم…موجودہ افغان جہاد کے آغاز میں اس سے ملتی جلتی صورتحال تھی…حضرت مفتی نظام الدین شامزئیؒ بے چین ہو کر ہمارے مرکز تشریف لائے اور بیان کرتے ہوئے جگر مراد آبادی کے اشعار پڑھ کر رونے لگے    ؎

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعاء ہے

وہ بلند قامت،بلند ہمت اور زیادہ مسکرانے والے عالم دین تھے…مگر غم ایسا تھا کہ وہ کوہ ہمالیہ بھی آنسوؤں کی آبشار نہ روک سکا…اس وقت ہم سب کا واحد سہارا اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے تھے جو ہم نے قرآن مجید میں پڑھے تھے…خود بھی ان وعدوں کو یاد کرتے اور دوسروں کو بھی یہی وعدے سنا کر تسلّی دیتے…اور پھر رمضان المبارک میں خبر آ گئی کہ…امارت اسلامیہ افغانستان کا سقوط ہو گیا…آہ! امارت اسلامیہ افغانستان…مگر رب تعالیٰ کے وعدے مسکرا رہے تھے…اور قرآن مجید کی آیات جہاد چمک رہی تھیں…بے سروسامان مجاہدین نے اپنے بچے کھچے حواس کو سنبھالا اور جس کے ہاتھ میں جو کچھ بھی آیا وہ اسے لے کر ایک اندھیری جنگ میں کود گیا…فضائی بمباری کچھ تھمی اور دشمن زمین پر اترا تو …منظر حیران کن تھا…وہ جو قیمہ ہو چکے تھے اور لہو میں ڈوب چکے تھے…اُن کے فرزند زمین پر دشمن کا استقبال کرنے کو موجود تھے… تب ایک غیر متوازن جنگ شروع ہوئی… ہمارے روشن خیالوں نے اپنی گھڑیوں اور کیلنڈروں کو اُلٹا چلا دیا…یہ جنگ ایک ماہ چلے گی یا پندرہ دن…وہ ایک ایک دن گھٹاتے گئے مگر یہ کیا؟…ہر دن گھٹنے کے ساتھ ان کی اُمیدیں بھی گھٹنے لگیں…سبحان اللہ! مجاہدین نے ایسی جنگ لڑی کہ آسمان بھی جھانک کر دیکھتا ہو گا…سبحان اللہ! فدائیوں نے ایسا جہاد اٹھایا کہ حوریں بھی منظر دیکھنے آسمان پر تشریف لاتی ہوں گی…ایک سال،دوسال، تین سال…کئی جنرل بدل گئے…کئی قید خانے بھر گئے…کئی لشکر آئے اور چلے گئے…مگر کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کے بیٹے آگے ہی بڑھتے گئے…اور قندھار سے لے کر کابل تک…خوست سے لے کر غزنی تک…اور جلال آباد سے لے کر قندوز تک دنیا کے طاقت ور لشکر خود کو ایک تنگ اور اندھیری گلی میں بند محسوس کرتے گئے … ہائے کاش کوئی اس عظیم اور مبارک جہاد کی تاریخ لکھے تو دنیا کا ہر عقلمند شخص مسلمان ہو جائے…اور الحمد للہ اس جہاد کی برکت سے لاکھوں افراد اب تک مسلمان ہو چکے ہیں…خود دشمن کے کئی فوجی مسلمان ہو کر گئے اور ان میں سے بعض آج اسلام کے مبلغ بنے ہوئے ہیں…وہ جہاد جس کا ابتدائی منظر نامہ ’’غزوہ احد‘‘ جیسا تھا آج چودہ برس بعد اس میں سے ’’غزوہ احزاب‘‘ کی خوشبو آ رہی ہے…

دل چاہتا ہے پہلے غزوہ احد والی آیات لکھ دوں…اور پھر غزوہ احزاب والی…ان آیات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ…جہاد واقعی ایک زندہ عمل ہے…اور قرآن پاک کے جہادی واقعات بار بار…اپنا منظر دکھاتے رہتے ہیں…غامدی اور اس کے شاگردوں کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ جہاد کی اکثر آیات رسول اکرم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھیں… انکار ِ جہاد پر یہ دلیل تو مرزا قادیانی کو بھی نہ سوجھی… قرآن مجید قیامت تک کے لئے ہے اور تمام انس و جن کے لئے ہے…جب نماز والی آیات قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ہیں تو جہاد والی آیات بھی قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ہیں…آج کوئی بھی مسلمان غزوہ احزاب والی آیات پڑھ لے اور پھر افغانستان کے حالات دیکھے تو اس کا دل ایمان اور نور سے بھر جائے گا… الحمد للہ اس وقت پندرہ شہروں میں ’’دورہ آیات جہاد‘‘ پڑھایا جا رہا ہے…ماشاء اللہ تین ہزار سے زائد افراد کراچی سے لے کر پشاور تک…اور بہاولپور سے لے کر قلات اور ژوب تک قرآن مجید کی زندہ آیات جہاد کو پڑھ اور سمجھ رہے ہیں…مبارک ہو ان تمام مسلمانوں کو جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا…انہیں بھی جنہوں نے اس مبارک جہاد میں جان لگائی اور ان کو بھی جنہوں نے اس جہاد میں مال لگایا…اور انہیں بھی جنہوں نے اس جہاد کے لئے دعائیں اور محبت کے پھول کھلائے رکھے… ماشاء اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں گئی…

آج وہ مظلوم شہید کتنے یاد آتے ہیں جنہیں شبرغان اور قندوز میں کنٹینروں میں بند کر کے شہید کیا گیا…اور وہ جو قلعہ جنگی کی جیل میں بمباری سے شہید ہوئے…آج ان شہداء کی ارواح کتنی خوش ہو ںگی کہ…ان  کے سپہ سالار حضرت ملا فضل اخوند فاتحانہ رہائی پا چکے ہیں…اس وقت کے دردناک اور خون آشام حالات میں کون اس فتح کا تصور کر سکتا تھا؟؟…مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں…اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ دنیا اور آخرت کے جو وعدے کئے ہیںوہ ضرور پورے ہوں گے…

 ایک دعاء اپنا لیں
ہمیں ہر دن تین چیزوں کی بے حد ضرورت ہوتی ہے…یہ تین چیزیں مل جائیں تو ہمارا پورا دن کامیاب ہو جاتا ہے…اور اگر کسی دن ہم ان تین چیزوں سے محروم رہیں تو ہمارا وہ دن…یعنی زندگی کا زمانہ (نعوذ باللہ) نا کام ہو جاتا ہے…

ہمارے محسن اور آقا حضرت محمد ﷺ نے ہمیں دعاء سکھا دی ہے اور ان تین چیزوں کی نشاندہی بھی فرما دی ہے…اور انہیں پانے کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیا ہے…اور طریقہ یہی ہے کہ ہم ہر صبح دل کی توجہ سے وہ تین چیزیں مانگ لیا کریں…

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلا
یا اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں…یعنی مانگتا ہوں نفع دینے والا علم…پاکیزہ رزق اور مقبول اعمال سبحان اللہ! کیسی جامع اورکتنی ضروری دعاء ہے…علم نافع، رزق طیب اور مقبول اعمال…ان تین الفاظ کی تشریح کی جائے تو ایک پورا کالم درکار ہو گا…علم، اللہ تعالیٰ کا نور ہے… اور نفع دینے والا علم انسان کو راستہ بھی دکھاتا ہے اور منزل تک بھی لے جاتا ہے…پاکیزہ رزق انسان کی اہم ضرورت ہے…اور رزق میں صرف کھانا پینا اور مال ہی شامل نہیں…بلکہ انسان کو ملنے والی ہر نعمت رزق ہے…یہ رزق پاکیزہ ہو تو انسان کی قسمت جاگ اٹھتی ہے…اور مقبول اعمال کے ہم سب محتاج ہیں…کتنے لوگ طرح طرح کی سخت محنتیں کر کے اعمال کرتے ہیں مگر ان کی محنت رائیگاں جاتی ہے اور کسی وجہ سے اعمال قبول نہیں ہوتے…

فجر کی نماز کے بعد اس دعاء کو دل کی توجہ سے ہم سب تین بار مانگ لیا کریں

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلا…
آمین یا ارحم الراحمین

لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭…٭…٭


 

Monday, November 4, 2024

مُعْطِی بھی وہی… رزَّاق بھی وہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 436)


اﷲ تعالیٰ دنیا کی محبت، دنیا کے فتنے اور دنیا کی تنگی سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… آمین…

(۱) دنیا کی محبت بھی خطرناک… دل کو مُردہ کرنے والی

(۲) دنیا کا فتنہ بھی خطرناک… دل کو غافل کرنے والا

(۳) دنیا کی تنگی بھی خطرناک… دل کو لوگوں کا محتاج بنانے والی…

ایک قصہ
ایک نیک اور مالدار شخص نے اپنا قصہ لکھا ہے کہ… ایک دن میرا دل بہت بے چین ہوا… ہر چند کوشش کی کہ دل بہل جائے، پریشانی کا بوجھ اُترے اور بے چینی کم ہو، مگر وہ بڑھتی ہی گئی… بالآخر تنگ آکر باہر نکل گیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا، اسی دوران ایک مسجد کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے… فرض نمازوں میں سے کسی کا وقت نہیں تھا، میں بے ساختہ مسجد میں داخل ہوا کہ وضو کر کے دو چار رکعت نماز ادا کرتاہوں، ممکن ہے دل کو راحت ملے… وضو کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو ایک صاحب کو دیکھا… خوب رو رو کر گڑ گڑا کر دعاء مانگ رہے ہیں اور کافی بے قرار ہیں… غور سے ان کی دعاء سنی تو قرضہ اتارنے کی فریاد میں تھے… اُن کو سلام کیا، مصافحہ ہوا، قرضہ کا پوچھا… بتانے لگے کہ آج ادا کرنے کی آخری تاریخ ہے اپنے مالک سے مانگ رہا ہوں… اُن کاقرضہ چند ہزار روپے کا تھا وہ میں نے جیب سے نکال کر دے دیئے… ان کی آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے…اور میرے دل کی بے چینی سکون میں تبدیل ہو گئی… میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر پیش کیا کہ آئندہ جب ضرورت ہو مجھے فون کر لیں… یہ میرا پتا ہے اور یہ میرا فون نمبر… انہوں نے بغیر دیکھے کارڈ واپس کر دیا اور فرمایا… نہ جناب! یہ نہیں… میرے پاس اُن کا پتا موجود ہے جنہوں نے آج آپ کو بھیجا ہے… میں کسی اور کا پتا جیب میں رکھ کر اُن کو ناراض نہیں کر سکتا…

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم
تھوڑا سا غور فرمائیں
اللہ تعالیٰ ہی ہمارے اور تمام جہان کے رب ہیں… یعنی پالنے والے ہیں… وہی سب کے رزّاق ہیں، وہی معطی ہیں یعنی عطاء فرمانے والے… ہم ماں کے پیٹ میں تھے تواللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم چلنے پھرنے سے معذور معصوم بچے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم نے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے… مگرہم یہ سب کچھ کتنا جلدی بھول جاتے ہیں… کوئی ہمیں کچھ مال دے توہم اس کا نام پتا بہت احتیاط سے محفوظ کرلیتے ہیں… اور اپنی کئی توقعات اُس سے وابستہ کر لیتے ہیں… ہمارادل بھکاری کے پیالے کی طرح دنیا داروں کے سامنے منہ کھولے رہتا ہے کہ فلاں ہمیں یہ دے اور فلاںہمیں وہ دے… حالانکہ دنیاکے انسان فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں ہوں گے… اُن کا دل بھی چھوٹا اورہاتھ بھی تنگ… ہم جب کسی سے مانگیں گے تو وہ ہم سے نفرت کرے گا… ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو وہ ہم سے محبت فرمائے گا… ہم جب دنیا والوں سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ ہمیں دیںتو وہ لوگ ہم سے ڈریں گے، ہم سے بھاگیں گے اور ہم سے چھپیں گے… لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ سے امید اور توقع رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا پیار عطاء فرمائے گا اور ہمارے دل کو اپنے اور زیادہ قریب فرمالے گا… جو کہتا ہے یا اللہ! میں صرف آپ کا فقیر… اللہ تعالیٰ اُسے کسی اور کا فقیر اور محتاج نہیں بناتے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دو بچیوں کے جانوروں کو پانی پلایا… پھر؟

ثُمَّ تَوَلّٰی اِلَی الظِّلِّ
پھر پیٹھ پھیر کر ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے… ہاں!جب کسی پر احسان کرو تو پھر اپنا چہرہ بھی اس کی طرف اس امید میں نہ کرو کہ وہ شکریہ ادا کرے، وہ بدلہ دے، وہ دعاء دے بس فوراً اُس سے پیٹھ اور دل پھیر کر اپنے رب کے پاس آبیٹھو:

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر
موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں… یا اللہ! آپ کی طرف سے آنے والی خیر کا فقیر اور محتاج ہوں…

دل جب خالص اللہ تعالیٰ سے جڑا ہو… اور کسی کی طرف خیال نہ ہو تو پھر ایک خیر نہیں ہزاروں خیریں خود چل کر آتی ہیں…

فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ
خیر خود آگئی… کھانا، ٹھکانا، شادی، انصار اور بہترین معاشرہ سب کچھ ایک آن میں مل گیا… اسی لئے تو آج جب سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا یہ الفاظ زبان پر بار بار آرہے ہیں:

معطی بھی وہی، رزاق بھی وہ
بھائیو! اور بہنو!… کسی سے سؤال نہیں، کسی سے توقع اور غرض نہیں، کسی کا پتا اور فون نمبر نہیں… بس ایک اللہ، بس ایک اللہ، بس ایک اللہ…

اَلْمُعْطِی ھُوَاللّٰہ، اَلرَّزَاقُ ھُوَاللّٰہ، اَلرَّبُّ ھُوَاللّٰہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
وہ شخص جس نے مالدار آدمی کا کارڈ واپس کر دیا کتنا عقلمند تھا؟ اُس نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان پردہ آنا گوارہ نہ کیا… جب ضرورت پڑے توجہ کسی مالدار کی طرف چلی جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جائے… یہ کتنی محرومی کی بات ہے… مالدار کا فون کبھی کھلا کبھی بند… جبکہ اللہ تعالیٰ کا رابطہ ہروقت کھلا اور وہ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب… مالدار کا موڈ کبھی ٹھیک کبھی خراب، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمیشہ کھلا:

بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ
مالدار مر گیا تو اب فون ملانے سے کیا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حیٌّ اور  قیوم

ارے بھائیو! ایمان والے کو تو حاجت پیش آتی ہی اس لئے ہے کہ وہ بار بار

’’یا ربِّ، یا ربِّ، یا ربِّ‘‘
پکارے… اس کی حاجت پوری ہونے میں بعض اوقات تأخیر اس لئے ہوتی ہے کہ اُس کے نامۂ اعمال میں مزید دعاء اورمزید آہ وزاری لکھی جائے… ورنہ مالک کے خزانوں میں کیا کمی ہے… مگر جب بندہ مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو اچھا لگتا ہے… اور یہ مانگنا اُس بندے کے لئے آخرت کا سرمایہ بن جاتا ہے… ہم کسی مالدار سے مانگیں گے تو ہمارا چہرہ بگڑ جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو ہماراچہرہ روشن ہو جائے گا…

مالدارلوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ آپ سے کہہ دیں گے… جناب! جب ضرورت ہو مجھے بتادیجئے گا… حالانکہ وہ ہماری ہر ضرورت پوری نہیں کر سکتے… اگر ہم خدانخواستہ اُن کو اپنی ضرورت بتانے لگیں تو وہ دو چار بار کے بعد اپنا فون نمبر ہی بدل لیں گے… آخر وہ بھی انسان ہیں، اُن کو اپنے مال سے محبت ہوتی ہے… اُن کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں… اُن سے اور بھی بہت سے لینے والے ہوتے ہیں… توپھر اُن کے ایک جملے سے… ہماری توقعات کا رُخ اللہ ربّ العالمین سے ہٹ کر اُن کی طرف کیوں مُڑ جاتا ہے؟… جبکہ اللہ ربّ العالمین نے ہمیں فرمایا ہے کہ مجھ سے جب چاہو مانگو… میرے خزانے بے شمار ہیں… اور اللہ تعالیٰ جس کو جتنا بھی دیں اُن کے ہاں کمی نہیں آتی… آج سے ایک معمول بنا لیں… ضرورت کے وقت جب ہماری توجہ اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر کسی انسان کی طرف جائے تو ہم فوراً اپنے لئے اور اس انسان کے لئے استغفار شروع کردیں…

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ

یااللہ! میری بھی مغفرت فرما،اس کی بھی مغفرت فرما… یا اللہ! مجھے بھی معاف فرما اور اُسے بھی معاف فرما… ان شاء اللہ اس عمل کی برکت سے ہم ’’ اِشراف‘‘ کے گناہ سے بچ جائیں گے… مالدار بے چارے تو مصیبت میں ہوتے ہیں وہ کسی کو دس بار دیں مگرگیارہویں بار نہ دے سکیں تو سامنے والا اُن سے ناراض ہوجاتا ہے… اُن کو بددعائیں دیتا ہے… اُن کے دس بار دیئے ہوئے کو بھول کر اُن سے نفرت کرنے لگتاہے کیونکہ’’حبّ دنیا‘‘ نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے… ایسے اندھیرے ماحول میں ہم یہ روشنی پالیں کہ جو ہم پر احسان کرے ہم اُس کے لئے دعاء کریں، آئندہ اُس سے مزید کی توقع نہ رکھیں اور اگر دل میں توقع آئے تو ہم اُس کے لئے استغفار کا ہدیہ بھیجیں یوں ہم اُسے دینے والے بن جائیں گے… اور اللہ تعالیٰ کو اوپر کا ہاتھ… یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ پسند ہے…

حضرت علی رضی اللہ عنہ… زاہدوں کے امام ہیں، آج اُن کے کئی مبارک فرامین نقل کرنے تھے مگر کالم کی جگہ مختصر ہے تو بس ایک ہی فرمان پر اکتفا کرتے ہیں… اللہ کرے وہ میرے اور آپ سب کے دل میں اُتر جائے…

حضرت ہجویریؒ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:

ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! مجھے کوئی وصیت کیجئے، آپؓ نے فرمایا:

تم اپنے اہل و اولاد میں مشغول ہونے کو(یعنی ان کی خاطر دنیا جمع کرنے کو) اپنا سب سے بڑا اور اہم کام نہ بناؤ… کیونکہ اگر تمہارے اہل و اولاد اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں مشغول ہونا اور ان کی فکر کرنا تمہارے لئے کسی بھی طرح درست نہیں… (کشف المحجوب ص ۱۱۳)

ایک جامع نصاب
’’حبّ دنیا‘‘ سے حفاظت کا موضوع بڑا اہم اور بہت مفصل ہے… اوراسے بار بار دُھرانے کی ضرورت ہے… کیونکہ جن لوگوں کے دل میں آخرت کی فکر ہوتی ہے انہیں پر’’حبّ دنیا‘‘ کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… حضرت ابو سلیمان الدارانیؒ فرماتے ہیں:

’’جب آخرت دل میں ہو تو دنیا وہاں حملہ آور ہوتی ہے تاکہ آخرت کو دل سے نکال دے… لیکن جب دنیا دل میں ہو تو آخرت اُس پرحملہ آور نہیں ہوتی… کیونکہ دنیا کمینی ہے اور آخرت معزز ہے…‘‘

حبّ دنیا کا مکمل موضوع کسی ایک کالم میں نہیں آسکتا… بس آج ہم سب ایک نصاب یاد کر لیں اور ساری زندگی اُس سے غافل نہ ہوں… یہ نصاب ان شاء اللہ ہمیں دنیا کی محبت میں اندھا ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے

(۱) حبّ دنیا سے حفاظت کی ہمیشہ دعاء بہت عاجزی کے ساتھ مانگنے کا معمول رہے

(۲) حرام مال قطعاً نہ کمائیں، نہ لیں

(۳) کسی بھی انسان سے ہرگز سؤال نہ کریں

(۴) کسی بھی انسان سے ’’اِشراف‘‘ نہ رکھیں یعنی دل میں اُس سے کچھ لینے، کچھ ملنے کی لالچ اور توقع نہ ہو

(۵) مال میں اِسراف و تبذیر نہ کریں… نہ حرام پرخرچ کریں، نہ حلال میں ضرورت سے زیادہ لگائیں

(۶) مال میں بخل نہ کریں…خصوصاً زکوٰۃ اور دیگر شرعی حقوق ادا کرنے میں

(۷) امانت اور اجتماعی اموال میں ہرگز خیانت نہ کریں…

بس یہ ہے مختصر اور جامع نصاب… اللہ تعالیٰ میرے لئے بھی اس پرعمل آسان فرمائے اور آپ کے لئے بھی…

دینی،جہادی دعوت دینے والوں کے لئے
اگرلوگوں کی مالی حاجات پوری کرنے سے لوگ ہدایت پر آتے تو اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کو زمین کے خزانے دے کر بھیجتے… وہ لوگوں کو مال دیتے اور لوگ دین پر آجاتے… مگر مال سے دین پر کوئی نہیں آتا… مال سے گمراہی تو پھیلائی جا سکتی ہے، اسلام اور جہاد کو نہیں پھیلایا جا سکتا … آپ لوگوں کو دین کی اور جہاد کی دعوت دیں… یہی آپ کے لئے اور اُن کے لئے کامیابی کا راستہ ہے… اگرآپ ریلیف کے کاموں کو بھی ساتھ لگا کر دعوت چلائیں گے تو…لینے والے مزید کی توقع کریں گے اورجن کو نہیں ملے گا وہ آپ سے اور آپ کی دعوت سے نفرت کرنے لگیں گے… ریلیف اور خدمت خلق کا کام دین کا ایک الگ شعبہ ہے… اُس شعبہ کے بھی بہت فضائل ہیں… مگر وہ ایمان اور جہاد کی دعوت کے برابرنہیں… ایمان اور جہاد کی دعوت بہت بڑی چیز اور بڑی عظیم نعمت ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے یہ دعوت دی اورلوگوں کو جان و مال کی قربانی میں لگایا… جب لوگ دنیا سے کٹ کر جان ومال کی قربانی پر آگئے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی اُن کے قدموں میں ڈال دی… کسی کے ساتھ نیکی کرنا، خدمت خلق کرنا ان کاموں سے کوئی بھی مسلمان کسی کو روکنے کا تصور نہیں کر سکتا… مگر ان کاموں کو ایمان اور جہاد کی برحق دعوت کے ساتھ خلط کرنے سے … وہ عظیم دعوت کمزور ہوتی ہے… اپنی توجہ ایمان، اقامت صلوٰۃ اور جہاد کی دعوت اورعمل پررکھیں… اپنا مال جہادپرلگائیںاور اپنے ذاتی مال سے مسلمانوں کی جو حاجت پوری کر سکتے ہوں وہ کریں… حبّ دنیا کے فتنے سے خود بھی بچیں اور مسلمانوں کو بھی بچنے کی دعوت دیں… دین کی خاطر خود بھی جان و مال کی قربانی دیں اور مسلمانوں کو بھی اس قربانی پرلائیں… بس جلد ہی ہم زمین کے نیچے ایک ایسی جگہ ہوں گے جہاں نہ کوئی تکیہ ہوگا اور نہ کوئی نرم لحاف… ہمارے پاس جو کچھ ہے یہ اُن کا تھا جو مر گئے… پھر ہم مرجائیں گے اور یہ سب کچھ پیچھے والوں کا ہو جائے گا… اور ہم خالی ہاتھ قبرمیں ہوں گے… وہاں جو کچھ کام آسکتا ہو بس اسی کی ہم سب فکر اورمحنت کریں…

لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…

 لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…

٭…٭…٭