مسجد نامہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 451)
اﷲ تعالیٰ نے ایمان کی ایک بڑی علامت ارشاد فرمائی ہے:
’’مساجد تعمیر کرنا، مساجد آباد کرنا‘‘
آج ان شاء اللہ اسی بارے چند اہم باتیں عرض کرنی ہیں… پہلے ایک نظر’’دنیا‘‘ پر…
حالات حاضرہ
۱۔ بی بی سی کے جنگی تجزیہ نگار… فرنیک گارڈنر نے ایک ’’قلم توڑ‘‘ بات لکھ دی ہے…
وہ کہتا ہے!!
’’تیرہ سال سے دنیا کے تمام ممالک مل کر جہاد اور مجاہدین کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… انہوں نے اس کی خاطرہر حربہ آزما لیا ہے… مگر تیرہ سال کی ان متحدہ کوششوں کے باوجود اُن کے لئے خوشی کی ایک خبر بھی نہیں ہے‘‘…
دیکھیں کیسی سچی بات اس کے قلم اور زبان پر آگئی… سب پڑھیں:
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ، الحمدﷲ، اﷲ اکبر، سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم
۲۔ ابامہ جو صدر ہے امریکہ کا… اس کے منہ سے ایک’’زبان کاٹ‘‘ بات نکل گئی وہ کہتا ہے:
’’عراق میں ہم امریکیوں نے جو قربانیاں پیش کیں وہ عراق کی نا اہل حکومت کی وجہ سے سب ضائع اور رائیگاں چلی گئیں‘‘
بھائیو!دل سے پڑھیں:
اﷲ اکبر کبیرا،اﷲ اکبرکبیرا
۳۔ ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک جنرل… جس کا نام قاسم سلیمانی ہے وہ آج کل عراق میں ہے اور مجاہدین کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کی مدد کر رہا ہے… اس سے پہلے وہ شام میں تھا جہاں اُس نے مجاہدین کے خلاف بشار الاسد کے قاتلوں کی کمان کی… ایک ملک کا جنرل دوسرے ملکوں میں اس قدر کھلا کردار ادا کررہا ہے… مگر اس غیر ملکی مداخلت پر اقوام متحدہ خاموش، امریکہ خوش اور انڈیا مطمئن ہے… جبکہ پاکستان والے اگر اپنے کشمیر میں چلے جائیں تو غیر ملکی مداخلت کا شور بجنے لگتا ہے… اسے کہتے ہیں’’اسلام دشمنی‘‘ سب کہیں…
قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ
مرگ بردشمنان اسلام
مساجد کی طرف
مساجد کا موضوع بڑا دلکش اور بہت مفصل ہے… پہلے تین قصے سن لیں
۱۔ ترکی کی ایک مسجد میں ایک بزرگ چھوٹے بچوں کو سورہ فاتحہ یاد کرا رہے تھے… بچے بس چھ سات سال کی عمر کے تھے… پوری مسجد میں سورہ فاتحہ کا ترنم گونج رہا تھا … بزرگ کی عادت تھی کہ روزآنہ سبق کا امتحان لیتے اور اول آنے والے بچے اور بچی کو دس روپے انعام دیتے … اور سب بچوں کو کچھ نصیحت فرماتے…
سبق کا وقت ختم ہوا… بزرگ نے ایک ایک بچے سے امتحان لیا… اور اب بچے آنکھیں مٹکا مٹکا کر انتظار میں کہ… دس روپے کسے ملتے ہیں؟… بزرگ نے آج انداز بدل لیا… فرمایا! آج ایک اور امتحان…ہر بچہ بتائے کہ اگر اُسے دس روپے ملے تووہ اُن سے کیا خریدے گا؟… بچے جواب دینے لگے
غبارے، کھلونا، گاڑی، آئس کریم وغیرہ… مگر’’فاطمہ‘‘ خاموش… بزرگ نے پوچھا اگر فاطمہ بیٹی انعام جیت گئی تو وہ کیا خریدے گی… فاطمہ تھوڑی دیر شرمائی پھر بولی ٹافیاں… بزرگ نے فرمایا! اب ایک قصہ سنو اس کے بعد بتاتا ہوں کہ آج کا انعام کسے ملے گا…
دیکھو! اس مسجد میں کتنے لوگ نماز ادا کرتے ہیں… وہ کتنے سجدے کرتے ہیں… کتنے رکوع… کتنی دعائ، کتنے آنسو… اس مسجد میں کتنا درس ہوتا ہے، کتنا دین کا کام اور کتنے لوگ یہاں توبہ کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنی تعلیم ہوتی ہے، کتنے بچے پڑھتے ہیں… رمضان میں کتنے لوگ اعتکاف کرتے ہیں، کتنے روزے دار افطاری کرتے ہیں… اس مسجد میں کتنے جاہلوں کو علم ملتا ہے، کتنے گمراہوں کو ہدایت ملتی ہے… کتنا ذکر ہوتا ہے ، کتنی تلاوت ہوتی ہے…
کیا کسی کے بس میں ہے کہ… ایک آباد مسجد میں چوبیس گھنٹے میں جتنی نیکیاں ہوتی ہیں اُن کو لکھ سکے؟… کتنی بار سبحان ربی الاعلیٰ، کتنی بار سبحان ربی العظیم… کتنا صدقہ، خیرات… اور کتنی مناجات… مسجد کے تمام اعمال اگر لکھے جائیں تو صرف ایک دن کی نیکیوں کو ہزار صفحات پر بھی نہیں لکھا جا سکتا … پھر ایک سال میں کتنی نیکیاں ہوتی ہونگی؟…اور دس سال میں کتنی؟… کیا کسی کے بس میں ہے کہ شمار کر سکے؟… سب بچوں نے آواز لگائی… کسی کے بس میں نہیں…
بزرگ نے فرمایا ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان تمام نیکیوں کا ثواب اُس ایک شخص کو ملتا ہے جس نے یہ مسجد تعمیر کی تھی…عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی… مگر مسجد بنانے والے کو اُن تمام اعمال کا پورا ثواب ملتا ہے جواُس مسجد میں ہوتے ہیں، جو اس مسجد سے اٹھتے ہیں… اور جو اس مسجد سے پھیلتے ہیں… مثلاًآپ نے آج سورہ فاتحہ یاد کر لی… یہ آپ نے چونکہ اس مسجد میں بیٹھ کر یاد کی ہے… تو اس کا ثواب اور آپ لوگ پوری زندگی جتنی سورہ فاتحہ پڑھیں گے اُس کا ثواب… اور آپ آگے جن کو سورہ فاتحہ سکھائیں گے… اُس کا ثواب… یہ سب اس مسجد بنانے والے کے نامہ اعمال میں بھی شامل ہوتا جائے گا…کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جس نے یہ مسجد بنائی؟… اس کا نام’’خیر الدین‘‘ تھا… ایک غریب، متوسط آدمی، نہ عالم نہ مشہور بزرگ…بس اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ… اُسے شوق تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا گھر بناؤں… اُس نے ایک تھیلا سلوایا… یہ تھیلا وہ اپنے ساتھ رکھتا… بازار جب بھی جاتا توجو پھل اچھا لگتا اُسے دیکھ کر کہتا… لو بھائی گویا کہ یہ میں نے کھالیا… پھر جیب سے اُس پھل کی قیمت برابر پیسے نکال کر تھیلے میں ڈال لیتا… کبھی گوشت کی دکان پر گوشت اچھا لگتا تو کہتا… لوبھائی! گویا کہ میں نے یہ گوشت خریدا، پکایا اور مزے سے کھا لیا… پھر اس گوشت کی قیمت تھیلے میں ڈال لیتا… سالہا سال تک اس محنت اور مجاہدے کے بعد اس نے تھیلا کھولا تو بڑی رقم جمع تھی… جس سے اُس نے یہ مسجد بنائی…
قصہ سنا کربزرگ نے کہا… اب آج کے انعام کا اعلان… آج کا انعام’’ فاطمہ‘‘ کا ہے اُس نے سورہ فاتحہ سب سے اچھی یاد کی ہے… فاطمہ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا… اٹھ کر انعام وصول کیا… بزرگ نے پوچھا: فاطمہ ان پیسوں سے کیا لے گی… فوراً جواب آیا:کچھ بھی نہیں…
بزرگ نے کہا… تم نے تو ٹافیاں لینی تھیں… فاطمہ مسکرائی اور بولی… ٹافیاں گویا کہ میں نے کھا لیں… اب میں یہ پیسے جمع کروں گی اور مسجد بناؤں گی… سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم…
۲۔ دوسرا قصہ بھی قریبی زمانے کا ہے… ایک مالدار شخص نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائے… اپنے ملازموں سے کہا کوئی مناسب پلاٹ ڈھونڈو… چند دن کی کوشش سے ایک پلاٹ پسند کر لیا گیا… بہت مناسب جگہ پر تھا اور قیمت پینتیس لاکھ… جو اس مالدار کے لئے بہت آسان تھی… بات طیٔ ہو گئی…پتا چلا کہ یہ پلاٹ ایک غریب چوکیدار کا ہے… وہ اپنے پانچ چھ بچوں کے ساتھ سالہا سال سے غربت اور فقر و فاقہ کی زندگی کاٹ رہا تھا… اب کچھ خاندانی جائیداد تقسیم ہوئی تو اس کو یہ پلاٹ ملا جسے اُس نے فوراً ’’برائے فروخت‘‘ کر دیا تاکہ اس رقم سے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکے… خریدنے کے دن مالدار شخص بیس لاکھ کا چیک لیکرپہنچا… پلاٹ کے مالک نے کہا باقی پندرہ لاکھ؟… اُس نے کہا اوقاف سے جس دن منظوری آگئی اس دن باقی پندرہ لاکھ دے دوں گا؟ پلاٹ والے نے کہا اس میں اوقاف کا کیا کام؟… مالدار نے کہا میں نے یہاں مسجد بنانی ہے اس لئے اوقاف سے اجازت مانگی ہے…مسجد کا نام سن کر پلاٹ کا مالک رونے اور کانپنے لگا… اس نے چیک پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا! جائیے میں یہ پلاٹ نہیں بیچتا… پوچھا کیوں؟… کہنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے پلاٹ خرید کر اللہ کا گھر بنائیں… پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جنت میں گھر بنائے… اور میں پلاٹ کا مالک ہو کر اس سعادت سے محروم رہوں… اب میں اس پلاٹ پر مسجد ہی بناؤں گا… کروڑ پتی مالدار نے اُس غریب چوکیدار کے سامنے سر جھکا کر کہا… زندگی گزر گئی میں نے آج تک کسی کے سامنے خود کو چھوٹا یا حقیرنہ سمجھا… مگر آج میں خود کو آپ کے سامنے بے حد حقیر سمجھ رہا ہوں…
۳۔ تیسرا قصہ کچھ پرانے زمانے کا ہے… ایک بادشاہ نے ارادہ کیا کہ وہ ایک ایسی مسجد بنائے گا جس میں اس کے سوا کسی کا کوئی حصہ نہ ہو… اس نے پہلے جگہ خریدی،پھر اعلان کر دیا…خبردار کوئی بھی اس مسجد میں کسی طرح کا اپنا حصہ شامل نہ کرے… نہ مال نہ خدمت… جس نے کام کرنا ہو مزدوری اور اجرت پر کرے… خیر: اسی شرط کے ساتھ مسجد تیار ہو گئی سارا مال بادشاہ کا لگا… مسجد کے دروازہ پر بادشاہ نے اپنا نام لکھوا دیا… اور مسجد میں نماز شروع ہو گئی… ایک رات بادشاہ نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اترا اُس نے مسجد کے دروازہ سے بادشاہ کا نام کاٹ کر ایک عورت کا نام لکھ دیا… بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا مجھے اسی کا حکم ہے…صبح جب بادشاہ اٹھا تو بہت پریشان… اپنے کارندے بھیجے کہ جاکر دیکھو! میرا نام موجود ہے یا نہیں؟… انہوں نے جا کر دیکھا بادشاہ کا نام موجود تھا…مگر دوسری رات پھر وہی خواب… اور تیسری رات بھی…مگر جب جا کر دیکھتے تو بادشاہ کا کتبہ موجود ہوتا… بادشاہ نے خواب میں اس عورت کا نام یاد کر لیا تھا… اپنے لوگوں کو اس کی تلاش پر لگا دیا… وہ عورت مل گئی… اسے طلب کر لیا گیا… وہ بہت بوڑھی تھی اور رعشہ کی وجہ سے اس کا جسم کپکپاتاتھا… اور اس طلبی پر مزید بھی خوف سے کانپ رہی تھی… بادشاہ نے کہا…اے خاتون! آپ نے اس مسجد میں کیا حصہ ڈالا؟… اس نے کہا کچھ بھی نہیں… میں غریب کمزور بڑھیا… میری مجال کہ آپ کے اتنے سخت اعلان کے بعد کوئی جرأت کرتی… بادشاہ نے اس کو اللہ کا واسطہ دیا اور کہا آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا سچ بتا دیں… وہ بولی: بادشاہ سلامت کچھ بھی نہیں، بس اتنا کہ ایک گرمی کی دوپہر میں وہاں سے گزر رہی تھی… مزدور کاریگر سب اندر آرام میں تھے… ایک جانور جو مسجد کا سامان اٹھاتا تھا وہ باہر بندھا ہوا تھا… پیاس کی وجہ سے اس کا بُرا حال تھا… اس کے قریب ہی پانی کا بھرا برتن رکھا تھا مگر وہ اُس تک نہیںپہنچ سکتا تھا اور بار بار زور لگا کر ہانپ رہا تھا… میں نے وہ برتن اس کے قریب کر دیا اور اُس نے وہ پانی پی لیا… بس میں نے یہی خدمت کی… بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا…
اماں! آپ نے اتنا سا کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے ساری مسجد آپ کے نام کر دی… اور میں نے اتنا سارا کام اپنے نام کے لئے کیا تو اللہ تعالیٰ نے مسجد کے اجر میں مجھے شامل نہ فرمایا… پھر اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ جاکر مسجد سے میرا نام کاٹ دو اور اسی خاتون کا نام لکھ دو…
مقصد یہ کہ مسجد میں اخلاص کے ساتھ تھوڑی سی محنت کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہے… دراصل مسجد ایمان کا قلعہ… اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین جگہ ہے…ارشاد فرمایا:
احب البلاد الی اﷲ مساجدھا وابغض البلاد الی اﷲ اسواقھا
اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ مسجد اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہے۔ (صحیح مسلم)
آج بازار کتنے آباد ہوگئے… کیسی کیسی جدیدمارکیٹیں اور ان مارکیٹوں پر اُن سے بھی زیادہ پرفریب مارکیٹیں… جبکہ مساجد کی طرف مسلمانوں کی وہ توجہ نہیں ہے جو ایک حقیقی مسلمان کو ہونی چاہئے… جماعت نے الحمدللہ تین سو تیرہ مساجد تعمیر اور آباد کرنے کی نیت کر رکھی ہے… اللہ تعالیٰ کافضل دیکھیں کہ الحمدللہ اب تک اٹھاون مساجد تیار ہو چکی ہیں… ابھی حال ہی میں کراچی کے ایک خوش نصیب تاجرنے خود ایک مسجد تمام ضروریات کے ساتھ تیار کر کے جماعت کو دے دی ہے…اللہ تعالیٰ اُن کے اس عمل کو خاص قبولیت عطاء فرمائے…اور اب جماعت کے پاس جتنے پلاٹ موجود ہیں… ان میں سے مناسب مقامات پر رمضان المبارک کے بعد مساجد کی تعمیر کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا…
دراصل جہاد اور مسجد کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے… اہل علم نے تو یہاںتک لکھا ہے کہ… حضرت آقا مدنیﷺ مجاہدین کو مساجد کے ساتھ باندھ گئے ہیں تاکہ اُن کا جہاد مقبول اور کامیاب ہو… اسی لئے مسجد ہر جگہ مجاہد کے ساتھ چلتی ہے اور ہر قدم پر مجاہد کو نئی قوت، نیا جذبہ اور مضبوطی عطاء کرتی رہتی ہے… اہل سیر نے لکھا ہے کہ جہاد اور مسجد کے اس لزوم کی وجہ سے حضرت آقا مدنیﷺ کا معمول مبارک تھا کہ جب بھی جہاد کے سفر پر نکلتے تو راستے میں مساجد بناتے جاتے یا مساجد بنانے کا حکم فرماتے جاتے… صرف ایک غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک قول کے مطابق آپﷺ نے سولہ مساجد… اور دوسرے قول کے مطابق بیس مساجد تعمیر فرمائیں… آپ سیر کی کتابوں میں دیکھ لیں… ان تمام مساجد کے نام اور مقامات تک محفوظ ہیں… مجاہد کے ساتھ مسجد رہتی ہے تو وہ کبھی ناکام نہیںہوتا… مگر جب وہ مسجد سے دور ہٹ جائے تو پھر طرح طرح کے فتنوں کا شکار ہو کر کمزور ہوجاتا ہے… دشمنان اسلام نے تعاون اور میڈیاوار کا دھوکہ دے کر اپنے لوگ مجاہدین میں گھسائے جنہوں نے مساجد سے کٹے ہوئے دفاتر قائم کر کے مجاہدین کو مساجد سے دور کر دیا…تاکہ ان میں حبّ دنیا اور حبّ الشہوات کے بیچ بو سکیں… پس جو دفاتر کے ہو کر رہ گئے وہ حقیقی جہاد سے کٹ گئے… مگر جو اس فتنے کا شکار نہیں ہوئے وہ کامیاب رہے… اور اللہ تعالیٰ نے انہیںشہادتوں اور فتوحات سے نوازا… ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو اُن مساجد کا مفصل تذکرہ القلم میں آجائے گا… جو حضور اقدسﷺ نے اسفارِ جہاد کے دوران قائم فرمائیں…
آج کی آخری بات
مسجد تعمیر کرنا، مسجد آباد کرنا، مسجد کی خدمت کرنا، مسجد میں خوشبومہکانا، مسجد کی حفاظت کرنا، مسجد کی صفائی کرنا… مسجد میں باادب رہنا… مسجد میں بیٹھ کر جہاد کی ترتیب بنانا… یہ تمام اعمال بہت فضیلت والے ہیں…جماعت کی توجہ الحمدللہ مساجد کی طرف بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تین سو تیرہ کے ہدف کی جانب گامزن ہے… اس رمضان المبارک میں’’مسلمان‘‘ مساجد کے لئے بھی دل کھول کر اموال نکالیں… اور جہاد فی سبیل اللہ میں بھی بڑھ چڑھ کر جان و مال لگائیں… اور جہاد میں جان و مال لگانا… کعبہ شریف کی تعمیر سے بھی زیادہ افضل ہے…
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
٭…٭…٭