Tuesday, June 24, 2025

آخری گھنٹے

آخری گھنٹے

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 480)


اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مغفرت،ثابت قدمی اور نصرت عطاء فرمائے

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ
ایک سچی کہانی
آج کی مجلس میں ایک سچی کہانی عرض کرنی ہے…اور اسی کہانی کی روشنی میں موجودہ حالات پر چند باتیں…اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے

گیارہ فروری 1994؁ء…کشمیر کے علاقہ ’’اننت ناگ‘‘ سے ہماری گرفتاری ہوئی…پہلے کچھ دن کھندرو کیمپ میں رکھا گیا…اور پھر بادامی باغ کے ’’آرمی عقوبت خانے‘‘ آر آر سینٹر منتقل کر دیا گیا…یہ کہانی بادامی باغ سری نگر کے اسی عقوبت خانے کی ہے

دنیا دھوکے اور امتحان کی جگہ
دنیا ہر انسان کا عارضی گھر ہے…اور یہ امتحان گاہ ہے… اللہ کے دشمن کرسیوں پر اور اللہ کے دوست سولیوں پر…اللہ کے دشمن ہنستے دمکتے …اور اللہ کے دوست روتے بلکتے درد سے کراہتے …اللہ کے دشمن حکمران اور اللہ کے دوست قید میں …یہ سب کچھ امتحان ہے کہ…کون اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہتا ہے اور جنت خریدتا ہے…اور کون دنیا کے یہ رنگ دیکھ کر گمراہ ہو جاتا ہے… آج 26جنوری تھی اس زمانے کا ابرہہ یعنی اُبامہ اور اس زمانے کا ابو جہل یعنی مودی…کس قدر خوش تھے…ان کے گرد بڑی فوج،بڑے پہرے تھے …انڈیا میں یوم آزادی کی پریڈ تھی…کافروں نے اپنی شان و شوکت دکھانے کی ہر کوشش کی … منافقین منہ میں رال لئے اُن کو دیکھتے رہے کہ… کاش ہمیں بھی ایسی عزت ملے… جبکہ اہل ایمان پر آج کا دن بھی آزمائش والا گزرا… چھاپے ، گرفتاریاں،غم، آنسو…اور ایک دوسرے کو دلاسے…پاکستان کی موجودہ حکومت نے تو ظلم اور کفر نوازی میں سابقہ تمام حکومتوں کو مات دے دی ہے…مگر ظلم کا انجام بھی بھیانک ہوتا ہے…یہ حکومت اور اس کے حکمران بھی…بد دعاؤں کی زد میں آنے کو ہیں…انہوں نے تو چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بھی روند ڈالا ہے…اور یہ دنیا کی واحد اسلامی حکومت ہے جو نعوذ باللہ جہاد جیسے مقدس اسلامی فریضے کو ’’جرم‘‘ قرار دے کر عذاب الہٰی کو آوازیں دے رہی ہے…دنیا امتحان کی جگہ ہے یہاںموٹی اور تنی ہوئی گردنوں والے حکمرانوں کو…ایک وقت تک ڈھیل دی جاتی ہے…اور پھر رسی کھینچ لی جاتی ہے…دوسری طرف اہل ایمان ہمیشہ آزمائے جاتے ہیں…انبیاء علیہم السلام اور ان کے بعد سچے ایمان والے…طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالے جاتے ہیں…اور یہ آزمائشیں ان کے لئے حقیقی کامیابی کی ضمانت اور جنت کا ٹکٹ بن جاتی ہیں…جبکہ کافروں اور منافقوں کو جو کچھ دینا ہوتا ہے اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے…اور آخرت میں ان کے لئے عذاب کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہوتا…آج دنیا بھر کی جیلوں میں اہل ایمان…اپنی ایمانی آزمائش کے دن کاٹ رہے ہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سچے اہل ایمان میں شمار فرمائے…ہم نے بھی چند سال جیل کاٹی…اس قید کا پہلا سال سری نگر کے بادامی باغ میں گذرا…

قانون بدل جاتے ہیں
غزوہ بدر سے لے کر جہاد افغانستان تک … ہر جہاد میں کافروں کو ایسی مار پڑی کہ جہاد کے نام سے ان کی روحیں کانپتی ہیں…اسی لئے منافق حکمرانوں کو استعمال کرتے ہیں کہ…جہاد کے خلاف کام کرو… آج دنیا کی ہر جیل میں خواہ وہ مسلمانوں کے ممالک کی ہو یا کفار کے ملکوں کی… مجاہدین کے لئے الگ سیل ہوتے ہیں،الگ طرح کا تشدد ہوتا ہے …اور ان کے لئے ملک کا ہر قانون تبدیل کر دیا جاتا ہے…

پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں …کئی مسلمان پھانسی پر لٹکا دیئے گئے…ان کا کیس لڑنے والا ایڈووکیٹ چیختا رہا کہ… پرویز مشرف خود زندہ ہے توپھر کوئی اس کا قاتل کیسے بن گیا؟…مگر یہ لوگ داڑھیوں والے تھے،دین سے نسبت رکھتے تھے تو انہیں بے دردی سے لٹکا دیا گیا …یعنی زندہ مقتول کے قاتل مار دیئے گئے… جبکہ صولت مرزا نے ایک سو قاتلانہ وارداتوں کا اقرار کیا…مگر چونکہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ ابھی تک زندہ ہے…معلوم نہیں یہ حکمران کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے…بادامی باغ کا آر آر سینٹر کوئی جیل نہیں تھا…وہ ایک تفتیشی مرکز تھا…قانون کے مطابق وہاں کسی بھی قیدی کو صرف نوے دن تک رکھنے کی اجازت تھی…پھر یا تو اسے رہا کر دیا جاتا تھا یا کیس بنا کر جیل بھیج دیا جاتا تھا…یہ بہت تنگ اور اذیت ناک جگہ تھی… وہاں نوے دن رہنا بھی آسان کام نہیں تھا…مگر جب ہمارا معاملہ آیا تو یہ قانون بھی تبدیل ہو گیا اور ہمیں ایک سال کے لگ بھگ غیر قانونی طور پر اس سینٹر میں رکھا گیا…مقامی کشمیری مجاہدین آتے اور چلے جاتے مگر ہم پاکستانی اپنے تنگ اور تاریک سیلوں میں پڑے رہ جاتے…اور ہمیں کہا جاتا کہ تم نے بس یہیں رہنا ہے، یہیں مرنا ہے…اسی دوران کسی خیرخواہ نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ لوگ یہاں سے نکلنے کے لئے کچھ کریں…کیونکہ یہاں رہتے ہوئے نہ تو آپ کا اپنے گھروں سے رابطہ ممکن ہے …اور نہ ساتھیوں سے…اور چونکہ آپ لوگوں کو یہاں غیر قانونی طور پر رکھا گیا ہے تو اس لئے جب …معاملہ اوپر تک جائے گا تو شاید قانون کے مطابق آپ کو جیلوں میں شفٹ کر دیا جائے…مشورہ معقول تھا اور آپس کے مشورے میں طے پایا کہ بھوک ہڑتال کی جائے…ایسی بھوک ہڑتال جس میں جان نہ جائے کہ خود کشی ہو …مگر حکام پر کچھ دباؤ آ جائے…ہم بارہ افراد تھے…اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ہم نے بھوک ہڑتال شروع کر دی…اور مطالبہ یہ رکھا کہ ہمیں بھی جیل منتقل کیا جائے…

آزمائش کے آٹھ دن
ہم پہلے ہی عقوبت خانے کی آزمائش میں تھے …اب ساتھ بھوک ہڑتال بھی چل پڑی… ابتداء میں مقامی حکام نے سمجھانے کی کوشش کی …مگر ہم مضبوط رہے…پھر انہوں نے زور زبردستی شروع کی…مگر ہم ڈٹے رہے…وہ ہمیں اپنی سیلوں سے نکال کر باہر برآمدے میں بٹھا دیتے اور ہمارے سامنے ابلے ہوئے چاولوں کی پلیٹیں رکھ کر…بھاشن دیتے کہ آپ لوگ کھانا کھا لو…کھانا نہ کھانے سے آپ کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں…کھانا نہ کھانے میں آپ لوگوں کا اپنا ہی نقصان ہے…اور آپ کا دھرم(دین) بھی بھوک ہڑتال کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ…اس وقت ہم اپنا مطالبہ دہراتے کہ نہیں ہم نے ہرگز کھانا نہیں کھانا…آپ لوگ کم از کم اپنے قانون کا تو احترام کرو وغیرہ…

یہ سلسلہ چار دن چلا …ہمارے بعض ساتھی کمزور ہو گئے اور بعض بیمار…مجبوراً مقامی حکام کو اوپر بتانا پڑا…تب ویڈیو کیمرے لا کر ان کے سامنے وہی سب کچھ کیاگیا جو روز ہوتا تھا…پھر بعض ساتھی بیمار ہو گئے تو انہیں آرمی کے ہسپتال لے جایا گیا…جہاں ان کی داڑھیاں کاٹ دی گئیں اور زبردستی ان کی بھوک ہڑتال ختم کرا دی گئی… باقی جو ساتھی رہ گئے ان کو روز ڈرایا دھمکایا جاتا… مختلف طریقے سے خوف پھیلایا جاتا…اور بعض ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا…

آخری دن
بالآ خر وہ دن آ گیا جس میں ہمارے لئے فتح اور آسانی مقدر تھی…مگر انسان کہاں جانتا ہے کہ کون سا دن فتح والا ہے اور کون سا دن شکست والا …اس دن کا آغاز بہت مشکل تھا مگر اختتام بہت پیارا…صبح سے ہی ہمیں ڈرانے،دھمکانے کا عمل تیز ہو گیا…بعض ساتھیوں کو میڈیکل روم لے کر جا کر سخت مارا گیا…اور پھر انہیں نڈھال حالت میں لا کر ہمارے سامنے گھسیٹتے ہوئے اپنے سیلوں میں ڈال دیا گیا…حکام اس دن سرخ آنکھوں کے ساتھ آتے اور طرح طرح کی گالیاں بکتے…اور کہتے کہ آج اگر تم نے بھوک ہڑتال نہ توڑی تو ہم تمہیں ’’بی ایس ایف‘‘ کے ٹارچر سیل ’’پاپا ٹو‘‘ میں ڈال دیں گے…’’پاپاٹو‘‘ کے تشدد کی داستانیں وہاں بہت عام اور بہت دردناک تھیں…

جب دو ساتھیوں کو بہت مارا گیا تو …ان کی حالت دیکھ کر اکثر ساتھیوںکا غم سے برا حال ہو گیا …انسان اپنی تکلیف سہہ لیتا ہے مگر اپنے عزیز ساتھیوں کی تکلیف سے دل زخمی ہو جاتا ہے… ایک معزز ساتھی کسی طرح میرے سیل پر آئے اور کہنے لگے …اب ہمیں بھوک ہڑتال توڑ دینی چاہیے …اور ساتھیوں کو کھانے پینے کی اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ…ظلم اور تشدد بہت بڑھ گیا ہے…اور اگر ہماری قسمت میں اسی عقوبت خانے کا دانہ پانی ہے تو …اپنے مقدر کو قبول کر لینا چاہیے …اب ساتھیوں کو مزید مار کھاتے دیکھنا میرے بس میں نہیں…آپ اس پر ہمدردی سے سوچ لیں … میں ان کی بات سے متاثر ہوا اور کہا کہ میں دو رکعت پڑھ کر استخارہ کرتا ہوں…پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں…اللہ اکبر کبیرا…وہ عجیب دردناک لمحات تھے…کمزوری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز ادا نہیںکر سکتا تھا…اب دل پر مزید بوجھ کہ اگر ہم بھوک ہڑتال توڑیں تو…مشرکین کے سامنے اہل اسلام کی پسپائی اور ظاہری شکست ہے…اور اگر بھوک ہڑتال جاری رکھیں تو…مظلوم اور مسافر مجاہدین پر مزید تشدد کے ہم ذمہ دار بنتے ہیں… اس وقت جو حالت تھی،کیفیت تھی،درد تھا اور بے بسی تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے… بیٹھے بیٹھے دو رکعت نماز ادا کی اور دعاء میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی…ذہن اسی طرف جا رہا تھا کہ ساتھیوں کو تشدد سے بچایا جائے اور بھوک ہڑتال ختم کر دی جائے…دعاء کے دوران بوٹوں کی زور دار آواز آئی…ایک سپاہی تیزی سے میرے سیل کے سامنے آیا بلند آواز سے مجھے برا بھلا کیا…کھانا کھانے کا اصرار کیا اور اسی درمیان چپکے سے منہ قریب کر کے کہا…آپ کا مسئلہ حل ہونے والا ہے …چند گھنٹے ہیں، مضبوط رہنا…یہ آہستہ سے یہ کہہ کر پھر بلند آواز سے بھوک ہڑتال توڑنے کا کہتا ہوا تیزی سے واپس چلا گیا…اور یوں …غریب ،مسافر،بے بس،نڈھال اور کمزور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت آ گئی…اس نے چند گھنٹوں والی جو بات کہی تھی وہ فوراً سب ساتھیوں کو بتا دی گئی…اور سب کے جذبے دوبارہ جوان ہو گئے…

آخری گھنٹے
غالباً اوپر کے حکام نے نیچے والوں کو اب یہ آخری تین چار گھنٹے دئیے تھے کہ ان میں …جو کر سکتے ہو وہ کر کے بھوک ہڑتال ختم کراؤ…ورنہ ہمیں مجبورا ًان کو جیل میں منتقل کرنا پڑے گا… بس پھر کیا تھا…

عقوبت خانے کے حکام نے ہم پردباؤ کی حد کردی… ایسا سخت دباؤ کہ اگر ہمیں پہلے سے اطلاع نہ مل چکی ہوتی تو یقینا ہم ٹوٹ جاتے… آخر گوشت پوست کے بنے کمزور انسان تھے… ان آخری چار گھنٹوں میں ایسا خوفناک اور دہشت ناک ماحول بنایا گیا کہ…کبھی کبھار دل مکمل طور پر بیٹھ جاتا اور یہ خیال آتا کہ شاید وہ اطلاع بھی جھوٹی ہے…اور ہمیں پھنسانے کے لئے خود ہی غلط اطلاع دی گئی ہے…مگر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی …اور ہم ان کی سختی کے مقابلے میں پہلے سے بھی زیادہ سختی،مضبوطی اور عزیمت دکھانے لگے… بالآخرچار گھنٹے یہ خونی تماشا ختم ہوا…سرخ آنکھوں والے چہرے مسکراتے ہوئے آئے… کچھ نئے لوگ بھی ساتھ تھے…ہمیں مبارک باد دی کہ ابھی گاڑیاں پہنچ رہی ہیں…آپ کوٹ بھلوال جا رہے ہیں …چلو ہمارا آخری کھانا کھا لو…ہم نے کہا: ہم کوٹ بھلوال جا کر کھا لیں گے …تھوڑی دیر میں گاڑیاں آ گئیں اور ہم تنگ جیل سے ایک کھلی جیل کی طرف روانہ ہو گئے…

موجودہ حالات
الحمد للہ کفر کے اتحادی لشکر عبرتناک شکست کھا چکے ہیں…زمانے کا مؤرخ حیران ہے کہ اس واقعہ کو کیسے لکھے کہ…چالیس ملکوں کے مشترکہ اتحادی لشکر نے افغانستان میں اکیلے طالبان سے شکست کھائی ہے…ایٹمی طاقتوں کا غرور ٹوٹ چکا ہے…اور وہ جس جہاد کو مٹانے نکلے تھے وہ جہاد خود ان کے ملکوں میں داخل ہو چکا ہے…اور مجاہدین کے بڑے بڑے نئے لشکر وجود میں آ چکے ہیں…افغانستان سے غیر ملکی افواج تیزی سے نکل رہی ہیں…مگر وہ جاتے جاتے آخری لمحات میں ایسا خوف، ایسا ظلم اور ایسی دہشت مچانا چاہتے ہیں کہ…شاید اس کی وجہ سے وہ مجاہدین سے اپنی شکست کا بدلہ لے سکیں…اور اپنی شرمندگی کو کچھ کم کر سکیں…ساتھ ہی وہ ’’ پاکستان‘‘ کو اپنی شکست کا بڑا ذمہ دار سمجھتے ہیں …اور چاہتے ہیں کہ … جاتے جاتے اس ملک کو کھنڈر بنا جائیں…

بس اب آخری گھنٹوں کا خونی کھیل شروع ہے…پاکستان میں ہر طرف مارو،پکڑو، لٹکاؤ کی آوازیں ہیں…اور یہ ملک ایک نئی خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے…اور مجاہدین پر ہر طرف سے دباؤ ہے،تشدد ہے اور سخت پابندیاں ہیں…ہاں! شکست کھانے والا کفر ہمیشہ آخری گھنٹوں میں … یہی حرکت کرتا ہے…مگر اے مجاہدین اسلام!

یہ تو سوچو کہ…گذشتہ چودہ سال تم کس کی نصرت سے ’’فتح یاب‘‘ ہوئے؟…ہاں! صرف ایک اللہ کی نصرت سے…صرف اللہ تعالیٰ کی نصرت سے…

تو پھر ان آخری گھنٹوں میں بھی…اللہ تعالیٰ موجود ہے…وہ ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا… حوصلہ رکھو، ایک دوسرے کو حوصلہ دلاؤ…تشدد سے نہ گھبراؤ…پابندیوں اور بیانات سے نہ ڈرو… اللہ تعالیٰ کل بھی موجود تھا، آج بھی موجود ہے… اللہ تعالیٰ کل بھی ناصر تھا…آج بھی ناصر ہے… اسی کی طرف رجوع کرو…اور اسی کو پکارو…

اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ

لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


 

اکتاہٹ کا علاج

اکتاہٹ کا علاج

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 538)


اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں پر ’’سکینہ‘‘نازل فرمائے… دل بھی کبھی کبھار تھک جاتے ہیں، اُکتا جاتے ہیں…

دل کی اکتاہٹ کا علاج
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

دلوں کو بھی آرام دو، ان کے لئے حکمت آمیز لطیفے تلاش کرو کیونکہ جسموں کی طرح دل بھی تھکتے اور اُکتا جاتے ہیں… ( المرتضیٰ ص ۲۸۸)

حضرت نے دلوں کی اُکتاہٹ کا علاج … حکمت آمیز لطیفوں کو قرار دیا…

آج ہم بھی …ان شاء اللہ دلوں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے کچھ ہلکے پھلکے لطیفے سنائیں گے …وجہ یہ ہے کہ تمام تازہ خبریں دلوں کو تھکانے اور اُکتانے والی ہیں…مثلاً

٭ پرویز مشرف جو دوبارہ صدر پاکستان بننے آیا تھا…

پاکستان سے بھاگ گیا ہے…جہاد مسکرا رہا ہے…انتہا پسندی قہقہے لگا رہی ہے … سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ رو رہا ہے…جبکہ پرویز مشرف اپنے دھوئیں سے دبئی کو بدبودار کر رہا ہے… ظلم، شکست اور بزدلی کے دھبے اس کے نامہ اعمال پر نقش ہو چکے ہیں…بالآخر سب نے مر جانا ہے…اللہ تعالیٰ ایسے دھبوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…آمین

٭ بلوچستان سے انڈیا کا ایک حاضر سروس جاسوس پکڑا گیا ہے… یہ ملکی سلامتی کے حوالے سے ایک بڑا واقعہ ہے… مگر نہ ملک کا وزیر اعظم تڑپا اور نہ وزیر اطلاعات… شاید دونوں غمزدہ ہوں گے کہ ایک گہرے دوست ملک کا جاسوس کیوں پکڑ لیا…اور وہ بھی ’’ہندو‘‘ …پکڑنا تو صرف مجاہدین کو چاہیے… اور مسلمانوں کو…اسی وجہ سے نہ انڈیا پر کوئی دباؤ ڈالا گیا اور نہ عالمی سطح پر یہ معاملہ اُٹھایا گیا…اس جاسوس کے گھر کا پتا میڈیا پر بار بار آ رہا ہے…مگر ہندوستان نے نہ اس کے گھر پر چھاپہ ڈالا اور نہ اس کے رشتے داروں پر…

حالانکہ اگر کوئی پاکستانی مسلمان پکڑا جاتا تو اب تک…کئی گھروں ، مسجدوں اور خاندانوں پر چھاپے پڑ چکے ہوتے…ظالمو! اللہ تعالیٰ کے انتقام سے ڈرو…

٭انڈین جاسوس کے پکڑے جانے پر نہ مذاکرات ملتوی ہوئے…اور نہ وزراء اعظم کی ملاقات بلکہ اس واقعے کے باوجود…اپنی تحقیقاتی ٹیم بھی پٹھانکوٹ بھیج دی گئی…دراصل پاکستان میں اس وقت وہی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں جو ۱۹۷۱؁ء کے وقت بنے تھے…اور ان حالات کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوا تھا…اللہ تعالیٰ رحم فرمائے…

٭لاہور دھماکے کے بعد پھر آپریشن آپریشن کا شور ہے…یہی وہ آپریشن ہے جس نے دہشت گردی کو جنا ہے…مزید جتنے آپریشن ہوتے جائیں گے دہشت گردی کے اتنے ہی بچے پیدا ہوتے جائیں گے…مگر کوئی اس ملک کا ہمدرد ہو تو سوچے، ہر کسی نے اپنے اقتدار کے دن کمانے ہیں…اور ان دنوں میں غیروں کو خوش رکھنا ہے … آئیے ان اُکتا دینے والی خبروں سے ہٹ کر …آج اپنے دل کو آرام دیتے ہیں…

لطیفوں کا لطیفہ
’’لطیفہ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ آج کل کی عوامی زبان میں ہنسانے والی بات کو ’’لطیفہ ‘‘ کہا جاتا ہے …وہ چھوٹا سا سچا یا جھوٹا قصہ جسے سن کر ہنسی چھوٹ جائے…

ہم بھی بچپن میں ’’لطیفہ‘‘ کا یہی مطلب سمجھتے تھے…جامعہ میں حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحبؒ  اپنے بیان میں کبھی فرماتے… اس آیت میں ایک عجیب لطیفہ ہے… تب ہم چھوٹے بچے ہنسنے کے لئے  اپنے دانت تیار کر لیتے…مگر ہنسنے والی کوئی بات سامنے نہ آتی… کبھی فرماتے … اب میں ایک دلچسپ لطیفہ سناتا ہوں… تب ہم سراپا گوش، دندان بکف ہوشیار ہو جاتے… مگر ہنسنے کی خواہش پوری نہ ہوتی… جب چند درجے علم پڑھ لیا تو معلوم ہوا کہ…لطیفہ صرف ہنسنے والی بات کو نہیں کہتے… بلکہ لطیفہ کا مطلب ہوتا ہے … باریک نکتہ، لطیف بات، چھپا ہوا مطلب… دلچسپ بات، انوکھی بات ، اچھی بات… یعنی ہر وہ بات جس میں لطافت کی چاشنی ہو وہ لطیفہ کہلاتی ہے…

اس میں ہنسی اور خوش مزاجی والی گفتگو بھی آ جاتی ہے… دل کے آرام اور راحت کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن ’’لطائف‘‘ کا تذکرہ فرمایا ہے…ان سے مراد علم اور حکمت والی وہ مفید اور دلچسپ باتیں ہیں…جن کو سن کر دل خوشی، تازگی اور راحت محسوس کرے…اور اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے…

آج کل کے لطیفے
آج کل ہنسانے والی جھوٹی باتوں کو ہی لطیفہ سمجھا جاتا ہے…بہرحال یہ بھی ایک ’’فن‘‘ ہے …ہر کوئی ہنسانے کی صلاحیت نہیں رکھتا…آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی لوگ ایسے فضول لطیفے سناتے ہیں کہ…انہیں سن کر ہنسی نہیں رونا آتا ہے… مگر وہ سنانے کے بعد دانت نکال کر زبردستی ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں…اسی طرح بعض لوگ اتنا مشکل لطیفہ سناتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا…پھر خود اسے سمجھاتے ہیں اور یوں ہنسنے کا ٹائم ہی نکل جاتا ہے…ہمارے القلم کا ’’کارٹون ‘‘ بہت دلچسپ ہوتا ہے…بعض اوقات تو بے ساختہ ہنسی بھی چھوٹتی ہے اور دل سے دعاء بھی نکلتی ہے … کیونکہ دشمنان اسلام کی ایسی ذلت نمایاں کی جاتی ہے جو پورے ایک مضمون سے بھی نہیں ہو سکتی… مگر بعض اوقات کارٹون سمجھ میں نہیں آتا… تب بندہ ادارے والوں سے رابطہ کر کے عرض کرتا ہے …کارٹون کا مطلب ارشاد ہوتا کہ ہنسنے کا کاروبار کیا جا سکے…

مگر اس طرح کے ہنسی والے لطیفے سننے اور سنانے میں احتیاط کی ضرورت ہے…کیونکہ بہت سے کفریہ لطیفے ’’ نیٹ ‘‘ پر اور معاشرے میں پھیلا دئیے گئے ہیں… اگر لطیفے سننے اور سنانے ہوں تو خیال رہے کہ…ان میں اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک نہ آئے… قرآن مجید کی کسی آیت کا تذکرہ نہ ہو… حضرات انبیائ، ملائکہ کا تذکرہ نہ ہو…کسی دینی فرض یا سنت کا مذاق نہ اُڑایا گیا ہو…کسی مسلمان قوم کی تذلیل اور تحقیر نہ ہو…بس شرعی حدود میں رہتے ہوئے مزاح کیا جائے…اللہ تعالیٰ ہنساتے بھی ہیں اور رلاتے بھی ہیں…اسی لئے ہنسانے کے لئے بہت سی حلال چیزیں اور باتیں پیدا فرمائی ہیں…ضروری نہیں کہ…حرام کاموں والے جنسی مذاق سن کر ہی انسان کو خوشی ہو…بدکاری اور بے حیائی کے واقعات پر مبنی لطیفوں کو سننا بھی گناہ ہے اور انہیںسنانا بھی گناہ ہے…وہ کام جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتاہو ان کو سن کر ایک مسلمان کس طرح سے ہنس سکتا ہے؟…

اب کون سا لطیفہ؟
لطیفے کے دو مطلب ہمارے سامنے آ گئے … اب آج کی مجلس میں کون سا لطیفہ سنایا جائے … مفید دلچسپ باتیں؟… یا ہنسنے والے قصے؟ بندہ کے پاس دونوں کا تھوڑا تھوڑا سٹاک موجود ہے… مگر مفید خوشگوار باتوں میں فائدہ زیادہ ہوتا ہے … ویسے آپ آج کی تمہید سے یہ نہ سمجھیں کہ ہم حالات کی وجہ سے مایوس ہیں…الحمد للہ ایسی کوئی بات نہیں…تمام کام مکمل اہتمام سے چل رہے ہیں … الحمد للہ محاذ تمام آباد ہیں…مساجد، مدارس ، تربیہ، کفالت، تعلیم، ریاضت، تعمیر، حجامہ اور دعوت سب کاموں میں…اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہے…ابھی کراچی میں شاندار دورہ تفسیر ہوا … کل کوہاٹ میں ایمان پرور اجتماع ہوا…پشاور میں مثالی تربیتی نشست ہوئی…روز اجتماعات ہوتے ہیں…اور دیوانے نئی مہمات کی تیاری میں ہیں… ہاں! ہمارے کئی رفقاء اور ذمہ دار ساتھی گرفتار ہیں…اللہ تعالیٰ سے ان کی جلد رہائی کی دعاء اور اُمید ہے…

انسان کی کامیابی اور ناکامی…اس کے کام سے دیکھی جاتی ہے…آپ نے الحمدللہ جہاد کے کام کو اپنایا…اور آج الحمد للہ جہاد دنیا کا سب سے بڑا اور اہم معاملہ بن چکا ہے… اور دنیا کے تمام حکمران جہاد کے شرعی معنی کو سمجھ چکے ہیں…اور اسے مٹانے کی ہر کوشش کر رہے ہیں…اور ان کی ہر کوشش جہاد کا ایک نیا محاذ کھولنے کا ذریعہ بن رہی ہے… یہ آپ کی محنت کی دنیاوی کامیابی ہے … جبکہ اصل انعام اور کامیابی آخرت میں ہے…

قیدیوں کے لئے
سورہ یوسف میں تین کُرتے ہیں… حضرت یوسف علیہ السلام کی تین قمیصیں… سبحان اللہ ! پہلی قمیص کی کرامت یہ کہ… اس سے بھائیوں کا دھوکہ کھل گیا اور والد محترم کو معلوم ہو گیا کہ بیٹا زندہ ہے…دوسری قمیص کی کرامت یہ کہ وہ آپ کی پاکدامنی کی شہادت بن گئی… اور تیسری قمیص کی کرامت یہ کہ وہ والد محترم کے لئے بشارت اور شفاء بن گئی… آج یہ نکتہ اچانک میرے ذہن میں آیا تو معارف کی ایک قطار لگ گئی… آپ بھی اس میں غور کریں… آج کل ساتھی زیادہ گرفتار ہو رہے ہیں…ویسے تو رہائی کے کئی وظیفے…لطف اللطیف میں عرض کر دئیے ہیں…ایک یہ بھی ہے کہ… روزانہ توجہ سے ایک بار سورہ یوسف پڑھ لیا کریں…یعنی قیدی اگرروزانہ مکمل سورہ یوسف پڑھے تو ان شاء اللہ رہائی میں آسانی ہو جاتی ہے …اور شہادت کی موت کے لئے بھی اس سورت مبارکہ کی تلاوت کی جاتی ہے…

غریبوں کے لئے
غربت ایک بڑی عظیم الشان اور انمول نعمت ہے…مگر یہ بہت مشکل نعمت ہے…بہت کم لوگ اس کو برادشت کر سکتے ہیں…اور وہ بڑا اونچا مقام پاتے ہیں…وہ مسلمان جو مالی تنگی کا شکار ہیں … ان کے لئے ایک بڑا مجرب وظیفہ عرض خدمت ہے …عشاء کے بعد سورۃ مزمل پڑھیں …جب یہ الفاظ آئیں…

فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا
تو تلاوت روک کر پچیس بار پڑھیں

حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
پھر آگے پوری سورت مکمل کریں…وَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُولُونَ  الخ…

اس طرح سے روزانہ تین بار یا سات بار یہ سورت پڑھیں…ان شاء اللہ عجیب فائدہ دیکھیں گے… اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانوں سے ہم سب کی جائز حاجات پوری فرمائے…اور اپنے سوا کسی کا محتاج نہ فرمائے…آمین

دین بچائیں
ہمارے معاشرے میں بعض چیزیں ایسی داخل ہو گئی ہیں…جن کی شکل نعوذ باللہ ’’نفاق‘‘ جیسی ہے… یعنی دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور… مثلاً کوئی ہدیہ دیتا ہے تو اوپر اوپر سے بار بار اس کا ہاتھ پیچھے دھکیلتے ہیں کہ… ہمیں نہیں چاہیے…حالانکہ دل میں ایسی لالچ ہوتی ہے کہ سامنے والے کا ہاتھ بھی کاٹ لیں… کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو اوپر اوپر سے ضرور انکار کرتے ہیں…حالانکہ دل کھانے کے شوق سے اچھل رہا ہوتا ہے…یہ طرز درست نہیں… بلکہ یہ خطرناک ہے اور اس کی عادت ہماری پوری زندگی کو نفاق اور ریاکاری میں ڈال سکتی ہے…آپ نے کسی وجہ سے ہدیہ قبول نہیں کرنا تو بے شک نہ کریں…لیکن اگر دل میں قبول کرنے کا ارادہ ہے تو پہلی بار ہی میں خوشی اور شکریہ کے ساتھ خندہ لبی سے وصول کر لیں …اس میں عاجزی بھی ہے اور شکر گزاری بھی… اس سے ممکن ہے سامنے والا آپ کو لالچی یا حریص سمجھے گا…تو اس میں کوئی حرج نہیں… ہمیں اپنا ایمان بچانا ہے… اور ہم نفاق سے جس قدر دور ہوں گے اسی قدر ہمارا ایمان محفوظ ہو گا… ہدیہ خوشدلی سے مسکراتے ہوئے…اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتے ہوئے وصول کریں… دینے والے کو دعاء دیں…اور قدر کے ساتھ رکھیں… اور اگر کسی اور کو آگے دینا ہو تو بعد میں دیں…دینے والے کے سامنے نہ دیں…ہاں اگر ہدیہ قبول نہیں کرنا … اور اس کی کوئی شرعی وجہ موجود ہے تو پھر…تواضع کے ساتھ انکار کر دیں…مگر یہ انکار پکا ہو…ہر ہدیہ اور ہر دعوت قبول کرنا ضروری نہیں… جس ہدیے یا دعوت میں اپنا یا دینے والے کا دینی نقصان ہو وہ قبول نہیں کرنی چاہیے…

لطیفے بس کریں؟
ابھی میرے پاس آج کی مجلس کے لئے دو لطیفے باقی ہیں…ایک کھانے میں عجیب برکت کا …اور دوسرا کھانے کے طریقے کا…دونوں بڑے کام کے لطیفے ہیں مگر آپ کہیں گے…بابا! ہنسی تو آ نہیں رہی… اس لئے ایسے لطیفے بس اتنے ہی کافی ہیں…مزید پھر کبھی… ٹھیک ہے بس کرتے ہیں…باقی رہی ہنسی تو آپ ایک آئینہ لے لیں…رات کو اسے اپنے تکیے کے ساتھ رکھ کر سو جائیں… صبح جیسے ہی آنکھ کھلے فوراً آئینہ اُٹھا کر خود کو دیکھیں… بہت ہنسی آئے گی…سچی بات ہے ہنس ہنس کر نماز کے لئے جاگ جائیں گے … ہاں! بعض لوگ جب صبح جاگ کر آئینہ دیکھیں گے تو ان کو رونا آ جائے گا…ان کو چاہیے کہ رونا چھوڑیں …شکر کریں اور ہنسیں… اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایمان کے ساتھ ہنستا مسکراتا رکھے… آمین

 

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


 

اِنْتِصَارْ

اِنْتِصَارْ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 601)

اللہ تعالیٰ کی پناہ ’’شرک‘‘ سے… ’’شرک‘‘ سب سے خطرناک چیز… شرک پکا ہو جائے تو سارے عمل برباد اور مغفرت کی اُمید ختم…یا اللہ! شرک سے بچا… شرک کی حالت میں موت آئے اس سے بچا… یا اللہ! شرک سے شدید نفرت عطاء فرما… یا اللہ! شرک سے مکمل حفاظت عطاء فرما… ہم مسلمان جب تک صبح شام یہ دعاء نہ مانگ لیں نہ چین آتا ہے، نہ سکون … دعاء یہ ہے:

 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّ اَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہٖ
( ترجمہ) یا اللہ! جان بوجھ کر شرک کرنے سے اپنی حفاظت اور پناہ عطاء فرما… اور اگر لاعلمی میں شرک والا کوئی کام ہو گیا ہو تو معافی عطاء فرما…

اوپر جو چند سطریں لکھی ہیں… ان کو بار بار پڑھنے کی گذارش ہے… ان کو دل میں اُتارنے اور بسانے کی اِلتماس ہے… اب آئیے چند ضروری نکتوں کی طرف…

نمبر ایک دشمن
قرآن مجید نے بتایا ہے کہ… مسلمانوں کے نمبر ایک دشمن یہودی اور مشرک ہیں… حضور اَقدس ﷺ کی تمام جنگیں انہی دو دشمنوں سے ہوئیں… جن کو قرآن ہمارا دشمن قرار دے رہا ہے وہ کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے… ہمارے خیرخواہ نہیں بن سکتے… یہ پہلا نکتہ یاد رکھیں… آج کل یہودیوں کی طاقت ’’اسرائیل‘‘ میں اور مشرکوں کی طاقت ’’انڈیا‘‘ میں پَل رہی ہے…

بہترین مسلمان
عجیب نکتہ سمجھیں … مشرک اسلام کے بدترین دشمن ہیں… لیکن جب کوئی مشرک اخلاص کے ساتھ اسلام قبول کرتا ہے تو وہ بہترین مسلمان ہوتا ہے… یہی حال یہودیوں کا ہے … حضور اقدس ﷺ کے زمانے کا جائزہ لیں… آپ ﷺ کے گرد جتنے صحابہ کرام تھے… ماضی میں ان کی ’’وفاداری‘‘ کس مذہب کے ساتھ تھی؟… مگر جب شرک چھوڑ کر اخلاص سے کلمہ طیبہ پڑھا تو وہ کیسے عظیم مسلمان بنے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک مشرک اسلام قبول کرنے کے بعد بہترین مسلمان کیوں بنتا ہے… دوسرے مسلمانوں سے بہت آگے ؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے مگر یہ تفصیل طلب ہے… آج اس موضوع کو اس لئے نہیں چھیڑ سکتے کہ اس میں ڈوب کر ہمارا اصل موضوع رہ جائے گا…

بہترین رعایا
ہمارے نوجوان جب ہندوستان کی تاریخ پڑھتے ہیں تو انہیں ایک سوال بہت چبھتا ہے… وہ سوال یہ کہ ہندوستان کے مسلمان فاتحین اور بادشاہوں نے ہندوؤں کا خاتمہ کیوں نہیں کیا؟ … چلیں رنگین مزاج اکبر بادشاہ کو چھوڑیں… کم ہمت جہانگیر کو چھوڑیں… نرم طبیعت شاہجہان کو چھوڑیں… مگر اورنگ زیب عالمگیر نے یہ کارنامہ کیوں سر انجام نہیں دیا؟…

وہ نہ تو رنگین مزاج تھا… نہ کم ہمت اور نہ نرم خو… وہ دین کا عالم ، قرآن کا کاتب، اللہ تعالیٰ کا ولی… مرد میدان مجاہد… اور مضبوط اَعصاب کا مالک فاتح تھا… بہادر، زاہد، موحد، صوّام ( بہت روزے رکھنے والا)، قوّام ( راتوں کو قیام کرنے والا) اور باوقار انسان… عیاشی اس کے قریب سے بھی نہ گذری تھی… تلوار اس کی محبت تھی… جہاد اس کا جنون تھا… اور میدان جنگ اس کی سرشاری اور خوشی کا مقام تھا… ہمارے بے علم کالم نگار اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں… یہ باتیں پڑھ کر دُکھ ہوتا ہے… وہ اپنے بھائیوں کا ہرگز قاتل نہیں تھا … اس کے بھائی خود ہی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے… سکھ مذہب کے پیروکار اورنگ زیب عالمگیر کے کٹر دشمن ہیں… کیونکہ ان کا قابل فخر اور بہادر ترین گورو… عالمگیر کے ہاتھوں مارا گیا … مگر’’ سکھ‘‘ آج تک ’’عالمگیر‘‘ کی روحانی طاقت کے قائل ہیں… وہ حقیقی مسلمان بادشاہ تھا … ایسا کہ اس جیسے انسان صدیوں میں جنم لیتے ہیں… مگر سوال یہ کہ … عالمگیر نے مشرکوں کا صفایا کیوں نہیں کیا… افغانستان سے لے کر آج  کے پاکستان اور مکمل ہندوستان پر اس کی پچاس سال سے زائد عرصہ حکومت رہی… جواب یہ ہے کہ… مشرک یعنی ہندو جب کسی کے نیچے آ جائیں تو وہ’’ بہترین رعایا‘‘، بہترین غلام اور بہترین خادم بن جاتے ہیں… وفادار، محنتی، عاجز، مسکین اور ہر خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار … آپ کو میری بات پر یقین  نہ آئے تو امارات ، سعودیہ، بحرین، قطر اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے ہندوؤں کے حالات معلوم کر لیں… وہاں کے لوگ ہندو ملازم کو ترجیحی بنیاد پر ملازمت دیتے ہیں… کیونکہ اگر وہ سرجن ڈاکٹر ہے… مگر آپ کو اپنے گھر کا گٹر صاف کرانا ہے تو وہ فوراً دونوں ہاتھ جوڑ کر حامی بھر لے گا… اور دس ریال میں سارا کام کر دے گا… جبکہ مسلمان ڈاکٹر ہزار ریال میں بھی ایسے کام پر راضی نہیں ہو گا… مجھے کئی عرب ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے … وہاں جب میں ہاتھ جوڑے ، دانت نکالے ہندو ملازمین کو دیکھتا تو یقین ہی نہ آتا کہ… یہی لوگ کشمیر میں اتنے مظالم ڈھا رہے ہیں… انہی نے بابری مسجد شہید کی ہے… یہی لوگ ہندوستان میں جگہ جگہ مسلم کش فسادات بھڑکاتے ہیں… ایک عرب دوست نے کھانے پر بلایا… جو ملازم کھانا لایا وہ انڈیا کا ہندو تھا… میں نے حیرانی کا اظہار کیا تو اس نے بتایا کہ یہ سستے ملتے ہیں …کئی اَفراد کا کام ایک فرد کر لیتا ہے…کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتے… ہر وقت ہاتھ جوڑ کر جی حضوری میں لگے رہتے ہیں… تب مجھے تصور میں ہندوستان کے وہ دھاڑتے، چنگھاڑتے مجمعے یاد آئے جو مسلمانوں کے خون سے دریاؤں کو سرخ کردیتے ہیں… دراصل مشرک کی فطرت اور طبیعت الگ ہے… وہ شیطان کا پجاری ہوتا ہے … اس لئے بہت جلدی اپنا رنگ اور روپ بدل لیتا ہے… ہمارے ہندوستان کے فاتحین ان راجوں مہاراجوں سے تو لڑے جو مقابلے پر آئے مگر ہاتھ جوڑے عوام کا وہ کیا کرتے؟ جھکے جھکے، سہمے سہمے، ہر بات ماننے والے، ہر حکم قبول کرنے والے اور خوف سے تھر تھر کانپنے والے… مسلمانوں کی طرح اِن کی تلوار بھی باعزت، باغیرت اور با اصول ہوتی ہے… وہ جھکی ہوئی، کانپتی ہوئی گردنوں پر چلنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے… چنانچہ مسلمان فاتحین اطمینان سے حکومت کرتے رہے… اور ہندو ان کی بہترین رعایا بنے رہے… انگریز آیا تو اس نے برہمن کی دھوتی کو لنگوٹ بنا کر اسے اکھاڑے میں کھڑا کر دیا … تب آر ایس ایس وجود میں آئی… اور پھر اس کی ناپاک گود سے ایک کے بعد دوسری دہشت گرد تنظیم جنم لیتی رہی…

بدترین حکمران
مشرک بت پرست … دراصل شیطان کا پجاری ہوتا ہے… اسے جب حکومت ملتی ہے تو وہ بدترین حاکم ، بدترین ظالم، بدترین بے حیا اور بدترین دھوکے باز بن جاتا ہے… وہ بظاہر سبزی کھاتا ہے مگر وہ خون آشام عفریت بن جاتا ہے … وہ اہل توحید، اہل اسلام کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتا ہے… اور شیطان کی طرح اسلام کے خاتمے کے خواب دیکھتا ہے…

مکہ کے مشرک جب حالت شرک میں… مکہ کے اور جزیرۃ العرب کے حاکم تھے تو’’ جزیرۃ العرب‘‘ کی کیا حالت تھی؟ بات بات پر خون ریزی، دفن ہوتی ہوئی معصوم بچیوں کی چیخیں… ہر منہ سے بہتی شراب ، ہر چوتھا گھر فحاشی کا اڈہ… اور ہر طرف ظلم ، دادا گیری اور بربریت… روئے زمین کا دل ’’جزیرۃ العرب‘‘ ان دنوں ایسی حالت میں تھا کہ دنیا کی کوئی مہذب قوم وہاں قدم رکھنے کے لئے تیار نہیں تھی… اور ہر کوئی ہر برائی کی مثال کے طور پرعربوں کو پیش کرتا تھا… آج وہی حالت ہندوستان کی ہے وہاں کی جہالت ، بدبو ، گندگی ، بے حیائی… ظلم ، بربریت ، درندگی کو اگر کھول کر بیان کروں تو آپ کو متلی آنے لگے لگی … ہر منہ میں شراب، ہر زبان پر گالی، ہر دل میں ہوس کا جال… جھوٹ، دھوکہ، بے حیائی… اور ظلم…

آہ ہندوستان کے مسلمان… آج کس آفت میں پھنس گئے ہیں… وہ کل تک حکمران تھے، بادشاہ تھے… جبکہ آج وہ لنگوروں ، بندروں اور سوروں کے مظالم کا شکار ہیں… بی جے پی جو کہ آر ایس ایس کی نوے سالہ محنت کا’’ نچوڑ‘‘ ہے …اور مودی جو مشرکوں کی تمام خباثتوں کا ’’مرکب‘‘ ہے… وہ آج وہاں حکمران ہے… ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے… نہ کوئی ہجرت کا مقام قریب ہے… اور نہ ان کے آس پاس ان کی فکر کرنے والا کوئی مسلمان ملک یا حکمران ہے… پاکستان کے موجودہ جمہوری حکمران تو ہندوؤں کی محبت میں سرتاپا غرق ہیں… تب ایسے حالات میں ہندوستان کے مسلمان کیا کریں؟…

ترتیبِ الٰہی سمجھیں
ہندوستان کے مسلمان کہیں بھی نہ جائیں … وہ ہندوستان کے اصل باشندے اور اس کے ماضی اور مستقبل کے حکمران ہیں… وہ بس دو کام کریں… پہلا یہ کہ وہ پکے سچے شعوری مسلمان بن جائیں… کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید کریں… شرک سے پکی توبہ کریں… گناہوں سے توبہ کریں… اسلام کے پانچ محکم فرائض کو دل کے یقین سے مانیں… نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ… اور ان فرائض کی پابندی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائیں… دوسرا کام یہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ترتیب کو سمجھیں… ہم مسلمان جو جگہ جگہ مار کھا رہے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی بنائی ترتیب کو اُلٹ دیا ہے… ہم کہتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ ہمیں طاقت دے، ٹھکانہ دے، اسلحہ دے، سامان دے، وسائل دے، فرشتے دے تو ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کریں گے… جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب بیان فرمائی ہے کہ… اے مسلمانو! تم پہلے اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے آگے بڑھو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں ہر چیز عطاء فرمائیں گے… طاقت بھی، سامان بھی، نصرت بھی ، فرشتے بھی…

اِنْ تَنْصُرُوااللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ
یہ پکی ترتیب اور پکا وعدہ ہے… بدر کی لڑائی میں حضور اقدس ﷺ اور صحابہ کرام نے کوئی شرط نہیں رکھی… وہ خود دین کی نصرت کے لئے ایک ناہموار جگہ پر نہتے پہنچ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے نصرت کے وہ اَنداز دِکھائے کہ عقلیں حیران رہ گئیں … بدر کے بعد آج تک ہر تحریک میں یہی ہوتا رہا ہے… اور قیامت تک یہی ہوتا رہے گا…

ہندوستان کے مسلمان بھی اگر عزم و ہمت سے کام لیں… اور زیادہ دن زندہ رہنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھنا چھوڑ دیں تو پھر… اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور نصرت اُترے گی… ضرور اُترے گی، ضرور اُترے گی… اس میں نہ شک کی گنجائش ہے اور نہ کسی شبہے کی… آپ لوگ کب تک اپنی ’’حبّ الوطنی‘‘ کی صفائیاں دے کر زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے… صفائیاں دینا چھوڑو … صفائی شروع کرو… اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے…

نشے میں نہ رہو
’’مودی‘‘ ابھی ابھی ’’ یہودی‘‘ سے مل آیا ہے …ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ… مشرک اور یہودی جب بھی مل کر مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش یا اِتحاد بناتے ہیں تو… خود ان کی اپنی ’’ ذلت‘‘ کے دن شروع ہو جاتے ہیں … آپ غزوۂ اَحزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے آس پاس کی تاریخ پڑھ لیں تب آپ کے دل سے یہ جملہ نکلے گا کہ

’’ مودی کا دورہ اسرائیل مسلمانوں کو مبارک ہو‘‘

مودی اور یوگی دراصل اپنی طاقت اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے نشے میں چور ہیں… ان کا یہ نشہ ان شاء اللہ عنقریب ان کے دردِ سر میں تبدیل ہونے والا ہے… ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں میں بے چینی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ان میں جہاد کا جذبہ بہت سرعت سے اُبھر رہا ہے… مسلمان نوجوان جب اپنی قوم کا انتقام لینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرماتے ہیں… ہم نے گذشتہ پچیس تیس سال کے جہاد میں یہ بارہا دیکھا ہے کہ… جب مسلمان مجاہدین اپنے شہداء اور مقتولین کے اِنتقام کی نیت کر کے کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ان کی کارروائی میں غیبی مدد اور قوت شامل ہو جاتی ہے … اور اب تو اِنتقامی جہاد… جسے قرآن مجید ’’اِنتصار‘‘ کا پیارا نام دیتا ہے… روایتی اسلحہ کا محتاج نہیں رہا…اب بم ، گولی، بارود، بندوق، لانچر اور ٹریننگ کی بھی ضرورت نہیں رہتی… گاڑی، بجلی،پیٹرول،کھاد،ریت اور دوائیوں کے ذریعہ لوگ بڑی بڑی کارروائیاں کر لیتے ہیں… مودی اور یوگی نشے میں نہ رہیں… ان کے مظالم نے ’’انتصار‘‘ کی بجلی کا بٹن دبا دیا ہے… اب نہ کسی بھڑکانے والے کی ضرورت ہے اور نہ کسی ماسٹر مائنڈ کی… خود تمہارے مظالم اب واپس تمہاری طرف لوٹنے والے ہیں… ان شاء اللہ

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


 

صوفی ازم؟؟؟

صوفی ازم؟؟؟

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 634)

اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے … حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ملک ’’ یمن‘‘ تشکیل فرمائی… اہل یمن نے اسلام قبول کر لیا تھا… حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

’’ یا رسول اللہ! میں کم عمر نوجوان ہوں آپ مجھے ایسی قوم میں بھیج رہے ہیں جن میں باہمی مسائل ہوں گے‘‘ ( یعنی اُن کے جھگڑے ، معاملے اور فیصلے نمٹانے کی مجھ میں صلاحیت نہیں ہے)

اس پر حضرت آقا مدنی ﷺ نے یہ بشارت سنائی

ان اللّٰہ سیھدی قلبک ویثبت لسانک
اللہ تعالیٰ آپ کے دل اور زبان کو سیدھا اور مضبوط رکھے گا

 

حضرت علی فرماتے ہیں: مجھے اس کے بعد کبھی کسی فیصلے میں کوئی شک یا پریشانی نہیں ہوئی( ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ)

معلوم ہوا کہ … جس انسان کا دل سیدھا ہو جائے اور زبان ٹھیک ہو جائے وہ انسان ہر جگہ کامیاب ہے…

اُمت مسلمہ کے ایک مقبول طبقے نے… دل اور زبان کی اصلاح کو اپنا موضوع بنایا … اس پر بھر پور محنت کی… اس کے لئے نصاب مقرر کئے …اس کی خاطر بڑے بڑے مجاہدے کئے… قرآن و سنت میں غور کر کے اس کے لئے… طریقت کا ایک نظام بنایا… اس نظام کوصحبت کے ساتھ جوڑا… اور یوں … سلوک ، احسان، تصوف اور روحانیت کے نام سے ایک علم اور ایک سلسلہ وجود میں آ گیا… دل ہر برائی اور گندگی سے صاف ہو جائے ، پاک ہو جائے… نفس ہر شرارت سے اور ہر خباثت سے پاک ہو جائے، صاف ہو جائے…نیت اور ارادہ ہر دکھلاوے اور ہر خرابی سے پاک ہو جائے،صاف ہو جائے… بندے کا دل اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے… بندے کے دل میں نور اور روشنی پیدا ہو جائے… بندہ اپنی ذاتی اغراض سے پاک ہو کر… ایک اللہ کا ہو جائے… بندے کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی ہو جائے کہ… اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا اس کا کچھ مقصود نہ رہے کوئی مطلوب نہ رہے… اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس کا محبوب حقیقی نہ رہے… وہ خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پائے… اور ہر غرض سے پاک ہو کر اس کی بندگی کرے، اس کی غلامی کرے … اور اس کے ارادے کو اپنا ارادہ بنائے… اور اس کی تقدیر پر ہمیشہ خوش رہے …اور وہ اپنے ارادے کو اور اپنی نفسانی خواہشات کو… فناء کر دے…یہ ہے اسلامی تصوف اور اس کے مشہور سلسلے چار ہیں… ( ۱) قادری (۲) نقشبندی (۳) چشتی (۴) سہروردی

جبکہ ایک سلسلہ ’’اویسی‘‘ بھی… کسی کسی کو نصیب ہو جاتا ہے… تصوف چونکہ اسلام ہی کا ایک سلسلہ اور ایک علم ہے… اس لئے اس کے تمام قوانین… قرآن وسنت اور حضرات صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کی روشنی میں بنائے گئے ہیں… صوفیاء کے امام حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں:

مذھبنا ھذا مقید بالکتاب والسنۃ فمن لم یقرء القرآن ولم یکتب الحدیث لا یقتدی بہ فی مذھبنا وطریقنا ( البدایۃ والنہایۃ)
ہمارے تصوف کا یہ راستہ قرآن و سنت کے ساتھ بندھا ہوا ہے پس جو شخص قرآن مجید نہ پڑھے اور حدیث شریف نہ لکھے… تو ہمارے تصوف میں ایسے شخص کی پیروی نہیں کی جائے گی

آج کل پوری دنیا میں جس ’’صوفی ازم‘‘ کا شور ہے… ابھی سندھ میں اس کے نام پر میلے، فیسٹول ، ناچ ، گانے ،موسیقی، بھنگڑے، نشہ بازی اور بے حیائی کے جو مناظر ہیں اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ … اس کا قرآن وسنت میں کہاں ثبوت ہے؟ … چند جنگلی جانور جمع ہو کر… اپنی نفسانی ہوس پوری کرتے ہیں اور اسے ’’صوفی ازم ‘‘کا نام دے دیتے ہیں… دراصل یہ لوگ مسلمانوں کو… دین اسلام کی حقیقی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں… اللہ تعالیٰ ان کے شرور سے اہل ایمان کی حفاظت فرمائے…

ایک نظر ڈالیں
حضرات صوفیاء کرام … اپنے سلسلوں کی سند حضرات صحابہ کرام سے جوڑتے ہیں… اور حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو … تصوف کا امام اول قرار دیتے ہیں… کیونکہ تصوف میں ترقی کی آخری منزل … مقام ’’صدیقیّت‘‘ ہے… اس کے آگے’’ نبوت‘‘ کا مقام ہے… ’’نبوت‘‘ کسی کو اپنی محنت یا مجاہدے سے نہیں مل سکتی … ایک انسان جو آخری ترقی کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ… صدیق کے مقام تک پہنچ جائے… اور یہ مقام بہت اونچا ہے… مقام تو کیا کہنے … صدیق کی نسبت مل جانا بھی بڑی سعادت ہے … اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صدیقین اولیاء کے امام ہیں… اور آپ منبر پر بیٹھ کر فرماتے تھے کہ اے مسلمانو!

جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت کو مسلط فرما دیتے ہیں…

آج کل اہل پاکستان اس ذلت کا بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ابھی سینٹ کے انتخابات میں … قوم کے برے لوگ اپنے حرام مال کے زور پر سب سے بڑے قانون ساز ادارے کے مالک بن گئے… ایسے لوگ قوم کے لئے کیا خیر خواہی کریں گے؟ … خیر یہ الگ موضوع ہے…

بات یہ عرض کرنی ہے کہ… آج کل ’’صوفی ازم ‘‘ کا منحوس نعرہ اس لئے بلند کیا جا رہا ہے تاکہ… مسلمانوں کو ’’جہاد ‘‘ سے روکا جا سکے جبکہ حقیقی تصوف میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ… صوفیاء کے سب سے اونچے درجے کے امام … یعنی صدیقین کے امام حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے لئے جہاد کو لازم سمجھتے ہیں… خود بھی ساری زندگی جہاد میں رہے اور پھر اپنے مختصر دور خلافت میں… انہوں نے اس وقت کی تقریباً پوری امت مسلمہ کو جہاد پر لگادیا یہاں تک کہ… مدینہ منورہ خالی ہونے لگا…

اہل تصوف کے دوسرے بڑے امام … جن تک صوفیاء کرام اپنی سند جوڑتے ہیں … وہ ہیں اسد اللہ الغالب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ… اللہ تعالیٰ کے شیر… ناقابل شکست فاتح … اور بدر و خیبر کے فاتح… پھر آپ حضرات صوفیاء کرام کے حالات پڑھتے جائیں … جن جن بزرگوں کے ساتھ اہل تصوف خود کوجوڑتے ہیں… وہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہوں یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ… یہ سب حضرات باقاعدہ جہاد فرماتے رہے… جنگ یرموک کے موقع پر … اسلامی لشکر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ موجود تھے اور انہوں نے خطاب فرما کر … مسلمانوں کو ثابت قدمی اور بہادری کی تلقین فرمائی … نیچے کے حضرات میں… حضر ت حسن بصری سے حضرت ابراہیم بن ادہم تک … آپ کو ایک طرف سلوک و احسان کی عظیم بلندیاں نظر آتی ہیں تو ساتھ ہی جہاد کے عظیم کارنامے بھی… ساتویں صدی میں تصوف کے مشہور امام اور بزرگ حضرت الشیخ عبد اللہ الیونینی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’’البدایہ والنہایہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ… آپ ’’اسد الشام‘‘ یعنی ملک شام کے شیر کے لقب سے مشہور تھے اور صاحب احوال و مکاشفات تھے… آپ امام طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے مجاہد تھے… حافظ ابن رجبؒ لکھتے ہیں :

وکان لا ینقطع عن غزوۃ من الغزوات ولہ احوال و کرامات کثیرۃ جدا
یعنی آپ کسی بھی جنگ سے پیچھے نہیں رہتے تھے… اور آپ کے احوال اور کرامات بہت کثیر ہیں…

فتنے سے پناہ
مسلمان چونکہ… بزرگان دین سے محبت رکھتے ہیں… ان سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں … اور اپنی مشکلات وغیرہ میں بھی وہ… ان کی طرف رجوع کرتے ہیں… تو دشمنان اسلام بھی … اکثر اسی لبادے میں… مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں… انگریزوں نے باقاعدہ ایسے ادارے بنائے جو نقلی بزرگ ، بابے، صاحب کشف اور صاحب کرامات ملنگ تیار کر کے… مسلمانوں میں گھساتے تھے… دشمن کے یہ ایجنٹ ایک طرف تو مسلمانوں کے عقائد بگاڑتے تودوسری طرف…ان کے خلاف جاسوسی بھی کرتے تھے… یہ ایک بڑی دردناک اور طویل داستان ہے… اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے … کئی غیر مسلم کافر… آج بھی مسلمان بن کر مسلمانوں میں… اندر تک گھسے ہوئے ہیں اور دن رات… لاکھوں مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں …ہم اس داستان کو ایک طرف چھوڑتے ہیں … کیونکہ اس کا زیادہ تذکرہ… صرف غم، خوف، پریشانی اور شبہات ہی پیدا کرتا ہے… اصل بات یہ ہے کہ… مسلمان اگر چند چیزوں کا خیال رکھ لے تو وہ کبھی بھی… کسی ایسے فتنے کا شکار نہیں ہو سکتا… کلمہ طیبہ کے ساتھ مضبوط تعلق اور اس کا بکثرت ورد… نماز کے ساتھ پکی یاری اور عشق …جہاد فی سبیل اللہ سے والہانہ تعلق اور محبت … فرائض کی پابندی… قرآن مجید کی تلاوت اور مسنون اوراد کا اہتمام… یہ ایک مختصر نصاب ہے اور اس میں سب کچھ آ جاتا ہے… ساتھ ہی ہر نماز کے بعد فتنوں سے حفاظت کی دعاء کا بہت اہتمام رہے

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَاظَھَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَائِ
چونکہ زمانے کے اکثر بڑے فتنوں کی لگام’’ عورتوں‘‘ کے ہاتھ میں ہے اس لئے عورتوں کے فتنے سے حفاظت کی دعاء ہر مسلمان مرد اور عورت کو کرنی چاہیے اور ہماری مسلمان بہنوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ… یہ دعاء نعوذ باللہ ان کے خلاف ہے… اسی طرح جمعۃ المبارک کے دن سورۃ الکہف کا اہتمام رکھیں اور اپنا ’’جمعہ‘‘ خوب مضبوط بنائیں… جمعہ اگر مضبوط ہو جائے تو فتنے دور دور بھاگ جاتے ہیں… خلاصہ یہ کہ ’’صوفی ازم‘‘ کے نام سے ایک شیطانی فتنہ اس وقت مسلمانوں میں پھیلایا جا رہا ہے… اہل ایمان اس سے خبردار رہیں…

تنقید سے پہلے
سلفی بھائی آج کا کالم پڑھ کر… ضرور پریشان ہوں گے… اور بعض اس بارے میں خطوط بھی لکھیں گے کہ… تصوف اور صوفیت کا اسلام سے کیا تعلق؟ چونکہ سلفی بھائی… اپنے موجودہ علماء کے بہت پکے مقلد ہیں اس لیے وہ اس طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں … وہ اگر اُن اسلاف کی کتابیں مکمل پڑھیں… جن کی طرف وہ اپنی نسبت کرتے ہیں… مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ… تو وہ دیکھ لیں گے کہ یہ حضرات بھی اسلامی سلوک و احسان اور تصوف کے بالکل اسی طرح قائل تھے جس طرح کہ ہم ہیں… آج ہی مطالعہ کر کے دیکھ لیں… اور اندھی تقلید سے باہر نکلیں…

آخر میں ایک تحفہ
جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَأَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ( مسند احمد)
نہیں کوئی طاقت اور قوت مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے… اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے صرف اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے… اللہ تعالیٰ کی پکڑ ، مصیبت اور عذاب سے بچنے کی پناہ گاہ خود اللہ تعالیٰ ہے… یہ مسنون دعاء گناہوں سے حفاظت، پریشانیوں کے خاتمے ، حاجات کے پورا ہونے اور مصیبتوں سے حفاظت کے لئے…اکسیر ہے…

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَأَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


 

اہل شام کو سلام

 

اہل شام کو سلام

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 633)

اللہ تعالیٰ نے ملک ’’شام ‘‘ کو برکت سے بھر دیا ہے… یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے… یہ ’’مسجد اقصیٰ‘‘ اور تمام انبیاء علیہم السلام کے اجتماع کا مقام ہے… یہ انجیر اور زیتون والی سرزمین ہے… اسی سرزمین سے معراج کا سفر ہوا … اور اسی سرزمین سے آخری زمانے اسلام کے عروج کا سفر ہو گا… یہ فاتحین کی سرزمین ہے حتی کہ سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قیام بھی اسی میں ہے… یہ بہادروں کی زمین اور شیروں کا مسکن ہے… یہ زمین ہے مگر یہاں ستارے اُترتے ہیں… یہاں ظاہری اور باطنی حسن کی بہاریں پھوٹتی ہیں… یہاں علم ، جہاد اور روحانیت کے سہ دھاری چشمے بہتے ہیں… شام اُس اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ تھا جس کی سرحدیں چین اور فرانس تک پھیلی ہوئی تھیں… اور پھر شام ہی سے اسلام کا وہ لشکر چلے گا… جس کی قیادت حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام… اور حضرت محمد بن عبد اللہ المہدی رضی اللہ عنہ فرمائیں گے…

ملک شام نے حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا… اور پھر حضرت عمر بن عبد العزیز کا ناقابل فراموش دور خلافت بھی دیکھا … اسی ملک شام نے امین الامۃ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ… اور سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا جہاد دیکھا… شام کا دامن ہمیشہ آباد رہا… شام کی گود ہمیشہ ہری رہی … شام کا جنون ہمیشہ سرگرم رہا… شام کبھی نہیں جھکتا… شام کبھی نہیں مٹتا… شام کے سر پر حضرت آقا مدنی ﷺ کی دعاؤں کا پہرہ ہے… چار دن کی کالی رات بیت جائے گی…شام پھر مسکرائے گا… شام پھر یکجا ہو جائے گا… شام پھر گرجے گا… سوریا، اردن ، فلسطین اور لبنان کے ناموں میں بٹا ہوا شام… پھر ایک ہو جائے گا … شام میں نہ روس رہے گا نہ ایران… وہاں صرف بسے گا ایمان… اسد خاندان کے خوفناک مظالم کے بعد ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ شام بجھ گیا … شام دب گیا… مگر پھر دنیا بھر نے شام کے جہاد کی چمک دیکھی… شام کی ہر گلی نے مجاہد نکالے…یہ مفسرین کی سرزمین…جہاد اور اسلام سے نہیں کٹ سکتی… یہ محدثین کی سرزمین … عساکر اور ابن عساکر اُٹھاتی رہے گی …یہ مشارع الاشواق کی سرزمین… ’’مصارع العشاق‘‘ کی داستان دُہراتی رہے گی… شہداء غوطہ کو سلام… شہداء شام کو سلام… ارض مبارک کو سلام…

اندھی یلغار
شام پر اس وقت کئی غیر ملکی قوتیں حملہ آور ہیں… شام کا اصل مسئلہ وہاں کا قابض اور ظالم حکمران’’بشار الاسد‘‘ ہے… یہ بھورا چوہا ایک قاتل، دہشت گرد اور فرقہ پرست انسان ہے… اس کے باپ ’’حافظ الاسد‘‘ نے لاکھوں شامی مسلمانوں کو شہید کیا… اور مرتے وقت حکومت اپنے بیٹے کو دے گیا… شام کا جہاد کئی دہائیوں سے سلگ رہا تھا… مگر چند سال سے وہ قوت کے ساتھ بھڑک اُٹھا ہے… قریب تھا کہ ’’بشار الاسد‘‘ کی حکومت ختم ہو جاتی مگر ایران پوری قوت کے ساتھ شام میں گھس آیا… ایران کے قائد اعلیٰ نے شام میں اپنی جنگ کو ’’افضل جہاد‘‘ قرار دیا… اور وہاں مرنے والے ایرانیوں کو ’’شہید ‘‘ قرار دیا… یعنی اس کے نزدیک سنی مسلمانوں کو شہید کرنا افضل جہاد ہے… پاکستانی حکومت کا رجحان پہلے شامی مجاہدین کی طرف تھا مگر… زرداری نے اپنی فرقہ پرست ذہنیت کی وجہ سے… پیپلز پارٹی کو ایران کی پالیسیوں کا تابع بنا دیا ہے… اس وقت زرداری صاحب صدر تھے چنانچہ انہوں نے … پاکستان کو ایران کی حمایت میں کھڑا کر دیا… حالانکہ ایران ہمیشہ سے پاکستان کا بدترین دشمن رہا ہے… آپ کبھی ایرانی میڈیا سن لیں اس کی زبان پاکستان کے خلاف مودی اور ایڈوانی سے زیادہ سخت چلتی ہے… اور ایران ہر معاملے میں پاکستان کے خلاف انڈیا کا ساتھ دیتا ہے… شام میں ایران کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ بھی ’’بشار الاسد‘‘ کی حمایت میں اُتر آئی… اور یمن کے حوثیوں نے بھی پوری قوت کے ساتھ بشار الاسد کا ساتھ دیا… مگر یہ سب مل کر بھی مجاہدین کا مقابلہ نہ کر سکے… شامی حکومت مسلسل پسپا ہوتی گئی… ایران کے کئی جنرل اور ہزاروں جنگجو اس لڑائی میں مارے گئے… اور حزب اللہ نے اپنے قابل فخر کمانڈر اس جنگ میں کھو دئیے … تب بشار الاسد نے روس سے مدد مانگی اور روس شام میں داخل ہو گیا… ابھی دنیا کے حسین ترین شہر ’’غوطہ‘‘ پر جو بمباری ہو رہی ہے… اس میں روسی ، ایرانی اور شامی تینوں افواج مل کر… مجاہدین پر بمباری کر رہی ہیں… اس بمباری میں اب تک سینکڑوں افراد… جن میں شیر خوار معصوم بچے بھی شامل ہیں … شہید ہو چکے ہیں… امریکہ جو خود شام کی لڑائی میں… بعض افراد کا ساتھ دے رہا ہے… خاموشی سے مسلمانوں کا قتل عام دیکھ رہا ہے… اور ترکی جس سے شام کے مسلمانوں نے اچھی امید باندھ رکھی تھی… ابھی تک دور دور بیٹھا ہے … سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک جو کہ … شامی مجاہدین کی کسی قدر حمایت کر رہے تھے اب اپنے داخلی معاملات میں اُلجھ چکے ہیں… ایران کا شیطان ننگا ناچ رہا ہے اور اس کے منہ سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے… شام اور غوطہ پر اس اندھی یلغار نے امت مسلمہ کو بے چین کر دیا ہے… ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ شامی مسلمانوں کی مدد کرے… مگر راستے بند اور بے بسی کا منظر ہے… مگر اللہ تعالیٰ قادر ہے… اور ہر امید اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ ہے… وہی مظلوموں کو قوت دینے والا… اور وہی انصار کے لئے راستے کھولنے والا ہے…ہمارے پاکستان میں عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ… یہاں اگر ایران کا نام لے کر اس پر صرف تنقید بھی کی جائے تو فوراً ’’فرقہ پرستی‘‘ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے… جبکہ ایران دن رات مسلمانوں کو شہید کرتا رہے تب بھی اُسے ’’فرقہ پرست‘‘ نہیں کہا جاتا… دراصل ایران کی مسلکی، مذہبی ، صحافتی اور سفارتی یلغار ہمارے ملکوں پر بہت بڑھ چکی ہے… اور اب تو کئی اچھے خاصے افراد بھی… اس یلغار کا شکار نظر آتے ہیں… ابھی حال ہی میں اپنے چند فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے پر… پاکستان کی ایرانی لابی نے جو اودھم مچایا ہے… وہ پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے…

مولانا ! یہ مندر نوازی؟
ہندوستان میں عجیب ستم برپا ہوا ہے… حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت مولانا ابو الحسن ندویؒ کے خاندان کے ایک…معروف فرد… مولانا سلمان ندوی نے نعوذ باللہ ’’بابری مسجد‘‘ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے… اگرچہ ’’مولانا ‘‘ کے اس اعلان سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا… مگر دل کو دکھ ضرور پہنچا کہ کیسے خوفناک فتنوں کا دور آ گیا ہے… مولانا سلمان ندوی اپنی شہرت پسند طبیعت اور مزاج کے چھچھورے پن کی وجہ سے … ہندوستان کے مسلمانوں میں زیادہ معتبر حیثیت نہیں رکھتے… اور ان کی جھولی میں ان کی خاندانی نسبت کے علاوہ کوئی خاص خوبی بھی موجود نہیں ہے… وہ اپنے اسلاف کی طرح نہ علم میں کوئی مقام بنا سکے اور نہ تحریکی طور پر کوئی کارنامہ سر انجام دے سکے…مگر چونکہ آج کل تصویر، ویڈیو اور سوشل میڈیا کا زور ہے تو اس میدان میں… مولانا کا نام اور فوٹو بھی کچھ چل نکلا ہے… اُن کے بزرگوں میں سے حضرت علامہ سید ابو الحسن علی ندویؒ نے… مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی مضبوط تنظیم کی سالہا سال تک قیادت فرمائی… اور کئی مواقع پر ہندوستان کی فرقہ پرست پارٹیوں کو اپنے قدموں پر جھکایا…

چاہیے تو یہ تھا کہ … مولانا سلمان ندوی بھی اپنے اکابر و اسلاف کی طرح عزیمت کے اس میدان میں اپنا مقام بناتے مگر… بُرا ہو جدت پسندی کا کہ جس نے… اہل علم کے کئی خانوادوں کو اُجاڑ کر رکھ دیا ہے… اُمید تو یہی ہے کہ… مولانا سلمان ندوی اپنے اس نئے ظالمانہ موقف سے جلد رجوع کر لیں گے… اور وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور مسلمانوں سے معافی چاہیں گے… لیکن اگر وہ اپنی غلط بات پر ڈٹے رہے تو… اس کا نقصان خود ان کی ذات کو ہی پہنچے گا… مسلمان جانتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ اور’’ ندوی ‘‘ لکھنے سے… اتنا معتبر نہیں ہوجاتا کہ… وہ اُس کے کہنے پر… اپنی مقدس مسجد سے دستبردار ہو جائیں… اور اس مسجد کے سینے پر شرک کے مندر کو گوارہ کر لیں… الحمد للہ ہندوستان کے مؤقر ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘ نے مولانا سے برأت کا اعلان کر دیا ہے… اور دیگر اہل علم بھی ان کے اس موقف سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں… ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ… عمر کے ساتھ ساتھ ’’مولانا ‘‘ کے جذبے بھی… اس قدر بڑھاپے کا شکار ہو جائیں گے… اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور دین پر استقامت اور ثابت قدمی عطاء فرمائے…

آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


بزدلی سے نجات کا ایک نسخہ

بزدلی سے نجات کا ایک نسخہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 632)

اللہ تعالیٰ نے ’’تلواروں‘‘ کے سائے تلے ’’ جنت‘‘ رکھی ہے… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اعلموا ان الجنۃ تحت ظلال السیوف
خوب یقین کر لو کہ بلاشبہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے( بخاری)

اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار ’’سیف اللہ‘‘ منتخب فرمایا… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

نعم عبد اللّٰہ ھذا سیف من سیوف اللّٰہ
خالد اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے اور اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں( ترمذی)

 

غور فرمائیں … جہادی تلواروں کے سائے میں ’’جنت‘‘ ہے… اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… آئیے ! اس تلوار کا سایہ ڈھونڈیں… آئیے!اس تلوار سے نسبت جوڑیں … آئیے!اس تلوار سے رشتہ بنائیں تاکہ جنت ملے، شجاعت ملے، اطمینان ملے، کامیابی ملے، سکون ملے… حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… اللہ تعالیٰ ہی اس تلوار کو چلانے والا ہے… جب تلوار اللہ تعالیٰ کی ہے توچلائے گا بھی اللہ تعالیٰ… پھر یہ تلوار ایسی چلی کہ جنت کا سایہ دور دور تک پھیل گیا… وہ علاقے جہاں جہنم ہی جہنم تھی… ایک بھی ’’جنتی ‘‘ نہیں… ہر طرف جہنم والا عقیدہ… جہنم والے اعمال اور جہنمی مخلوق… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ان علاقوں کی طرف بڑھے تو ان علاقوں پر جنت کی بہار آ گئی… یہ عراق، یہ دمشق، یہ فلسطین، یہ ملک شام… یہ سب جنت کی خوشبو کو ترس رہے تھے… ہر طرف کفر تھا اور ظلم… جہالت تھی اور تاریکی… تہذیب کے نام پر بے حیائی تھی اور نفس پرستی… اللہ تعالیٰ کی تلوار حضرت سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے… جہاد فرمایا… تلوار چلی تو یہ علاقے جنت کی خوشبو سے جھومنے لگے… ان علاقوں میں صدیقین ، شہداء ، صالحین پیدا ہونے لگے… ہر طرف اذان گونجنے لگی… اور کفر کی جگہ ایمان کی بہار آ گئی… کسی نے خوب تحقیق کی ہے کہ … دنیا میں بڑے بڑے فاتحین گذرے ہیں… مگر ان میں سے کسی کی فتوحات بھی اتنی پائیدار نہیں جتنی کہ… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ہیں… منگولوں اور تاتاریوں نے آدھی دنیا پر قبضہ کیا… مگر پھر ان کی سلطنت ایک چھوٹے سے ملک تک سمٹ گئی… یہی حال… انگریزوں ، فرنچوں اور دیگر فاتحین کا ہوا… مگر حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو علاقے فتح فرمائے وہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں … مسلمانوں کے پاس ہی ہیں… یہ تحقیق پڑھی تو ذہن میں یہ نکتہ آ گیا کہ… جنت تلواروں کے سائے تلے ہے… جب عام جہادی تلواروں کا یہ رتبہ اور مقام ہے تو… اللہ تعالیٰ کی تلوار کا کیا مقام ہو گا… یہ تلوار جہاں بھی چمکی ، جہاں بھی برسی، جہاں بھی چلی اس کے نیچے جنت آباد ہوتی چلی گئی… اور آج تک الحمد للہ آباد ہے… کیونکہ ان علاقوں میں ایمان بھی موجود ہے اور اعمال صالحہ بھی… بے شک جہاد کے برابر کوئی عمل نہیں، کوئی عمل نہیں… ایک عابد آخر کتنی عبادت کر سکتا ہے؟ … ایک صدقہ دینے والا آخر کتنا صدقہ دے سکتا ہے؟ … لیکن ایک مجاہد ، ایک فاتح اور ایک غازی تو صدیوں کے اعمال کو اپنے نامہ اعمال میں جوڑ لیتا ہے… جن علاقوں کو وہ فتح کرتا ہے اور ان میں ایمان کے چراغ روشن کرتا ہے… ان علاقوں کے تمام اہل ایمان کے… ایمان اور اعمال میں اس کا حصہ شامل ہوتا ہے…

بے شک دنیا کے سارے کلکولیٹر اور سارے حساب دان مل کر بھی… ایک مجاہد کے ایک دن کے اعمال کا حساب نہیں لگا سکتے… حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ چونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… اور تلوار کے سائے تلے جنت ہوتی ہے تو… یقینی بات ہے کہ… ان کے تذکرے میں عجیب سکون محسوس ہوتا ہے… ان کے بارے میں جتنا پڑھا جائے پیاس نہیں بجھتی… بلکہ ان کے حالات ، واقعات اور اقوال پڑھ کر مزید شوق بڑھتا چلا جاتا ہے… اور دل ایک عجیب سی پاکیزگی اور قوت محسوس کرتا ہے… ویسے بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بڑے صاحب کرامت تھے… علامہ ابن حجر ؒ الاصابہ میں لکھتے ہیں:

اتی خالد بن الولید رجل معہ زق خمر فقال اللھم اجعلہ عسلا فصار عسلا
یعنی ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس کے پاس شراب سے بھراہوا مشکیزہ تھا… حضرت خالد رضی اللہ نے دعاء فرمائی… یا اللہ! اسے شہد بنا دیجئے… تو وہ شہد بن گیا…

 اسی طرح مستند حوالوں سے یہ بھی مذکور ہے کہ… آپ نے ایک بار خطرناک زہر اپنی ہتھیلی میں ڈالا اور بسم اللہ پڑھ کر اسے پی گئے… اس مہلک زہر نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا… دراصل جب آپ عجم کی طرف جہاد کے لئے بڑھے اور آپ کے رعب اور ہیبت نے ملکوں اور لشکروں کو لرزا کر رکھ دیا تو… ہر طرف آپ کو قتل اور شہید کرنے کی سازشیں زور پکڑ گئیں… تب کسی نے مشورہ دیا کہ… آپ کھانے میں بہت احتیاط فرمائیں کیونکہ دشمن آپ کو زہر دینا چاہتے ہیں…فرمایا:کیسا زہر؟ وہ میرے پاس لاؤ… زہر لایا گیا تو سارا اپنی ہتھیلی پر اُنڈیل دیا اور’’ بسم اللہ‘‘ پڑھ کر پی گئے… بے شک اللہ تعالیٰ کی سچی تلوار میں یہ تاثیر تھی کہ ناپاک شراب پر دعاء ڈالے تو اسے… پاکیزہ شہد بنا دے… اور مہلک زہر پر توجہ ڈالے تو اسے نفع مند دواء بنا دے… آج ہمارے قلوب میںبھی’’ حُبِّ دنیا‘‘ کا زہر اور بزدلی کی ناپاکی بھری ہوئی ہے… بے شک ’’بزدلی‘‘ شراب سے زیادہ نجس اور ناپاک چیز ہے… شراب کا اثر تھوڑی دیر رہتا ہے اور وہ انسان کو ذلت میں ڈالتی ہے… جبکہ بزدلی کا اثر تو انسان کو نعوذ باللہ مستقل ذلت اور غلامی میں دھکیل دیتا ہے… آج جہاد کے خلاف جتنے فتنے اور جتنی آوازیں ہیں ان سب کی اصل بنیاد… بزدلی اور حُبِّ دنیا ہے… بس موت نہ آ جائے…ہمیں کوئی مار نہ ڈالے… ہم کمزور ہیں… ہم نہیں لڑ سکتے … ہمیں زیادہ جینا ہے… وغیرہ وغیرہ… اصل بیماری یہی ہے… باقی دلائل تو پھر بزدلی خود گھڑوا لیتی ہے… مثال کے طور پر دیکھ لیں … آج کل جہاد کے بارے میں جو فتوے لائے جاتے ہیں… کچھ منفی اور کچھ مثبت… کیا ان فتووں میں… مسلمانوں کے لئے عملی جہاد کا کوئی ایک راستہ بھی موجود ہے؟ … اگر صورتحال یہ ہوتی کہ یہ لوگ جہاد کی مکمل تیاری کر کے… شہادت کے شوق میں مچل رہے تھے … تلواریں اُن کے ہاتھوں میں ہوتیں… گھوڑے اُن کے نیچے ہانپ رہے ہوتے اور پھر یہ بتاتے کہ… ہم تو تیار ہیں مگر فلاں فلاں شرعی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں… اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شرط جلد پوری ہو تاکہ ہم جنت کے میدانوں… یعنی جہاد کے محاذوں کی طرف کوچ کر جائیں… تب اُن کی باتوں میں وزن ہوتا… مگر نہ جہاد کا ارادہ، نہ جہاد کی نیت، نہ کبھی خواب و خیال میں جہاد کرنے کی آرزو… نہ جہاد کی تیاری… پھر کیسے فتوے اور کون سی شرطیں؟ کاش یہ کوئی ایک محاذ تو مسلمانوں کو بتا دیتے کہ… وہاں جہاد ہو رہا ہے… ہم بھی جا رہے ہیں اور تم بھی پہنچو… کاش یہ جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ کی کوئی ایک عملی صورت بتا دیتے… کیا صدر سے اجازت لینی ہے؟…ممنون حسین صاحب کس دن جہاد کی اجازت دینے کے لئے تشریف فرما ہوتے ہیں؟ کیا نواز شریف اور زرداری کے حکم سے جہاد ہو گا؟ … یہ دونوں حضرات اگر اپنے کافر دوستوں کی گود میں تشریف فرما ہوں تو جہاد کی اجازت کس سے لی جائے گی؟ جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے… ریاست سے کون سی ریاست مراد ہے… ریاست میں سے کس کا قول معتبر ہو گا؟ … فیصلے کا اختیار کس کو ہو گا؟ کیا جہاد کے لئے باقاعدہ ملازم ہونا بھی شرط ہو گا؟ … ملازمت کے بغیر کوئی مسلمان یہ فریضہ پورا کرنا چاہے تو کس طرح کرے گا؟ … کسی سوال کا جواب نہیں… بس مقصد ایک ہی ہے کہ جہاد نہ کرو… کیا یہ اللہ تعالیٰ کے عمومی عذاب کو دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے؟ … جہاد بند ہوتا ہے تو… اللہ تعالیٰ کاعمومی عذاب آتا ہے… مسلمانوں پر ذلت مسلط ہوتی ہے اور زمین گناہ اورفساد سے بھر جاتی ہے… اپنے دل سے بزدلی دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ… ہم حضرت سیف اللہ خالد رضی اللہ عنہ کی علمی اور روحانی صحبت حاصل کریں… اُن کے حالات پڑھیں، اُن کے واقعات پڑھیں… وہ ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی تلوار بن کر خون اور زخموں میں ڈوبے رہے… ممکن ہے اُن کی برکت سے ہمیں بھی یہ شوق اور کیفیت نصیب ہو جائے… وہ چونکہ ’’سراپا جہاد‘‘ تھے ’’مجسم جہاد‘‘ تھے… ’’ مکمل جہاد‘‘ تھے…’’ اصلی جہاد‘‘ تھے… اس لئے اُن کے اقوال میں بھی دعوت جہاد ہے… اور اُن کے اعمال میں بھی دعوت جہاد ہے…حتی کہ جب وہ اس دنیا سے کوچ فرمانے لگے… تب بھی اُن کی ساری فکر جہاد اور دعوت جہاد پر مرکوز تھی… چنانچہ اپنا سارا سامان اور اپنی ساری جائیداد جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف فرما دی… یہ وقف وہ پہلے ہی کر چکے تھے… وفات کے قریب پھر دوبارہ اس کی یاد دہانی کرائی… اور پھر دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ… جہاد کیوں نہیں کرتے ہو؟ … کیا موت سے ڈرتے ہو؟… دیکھو! جہاد میں موت نہیں ہے… میرے جسم کو دیکھو… ایک بالشت جگہ بھی جہادی زخموں سے محفوظ نہیں ہے… پورا جسم چھلنی چھلنی ہے… موت جہاں بھی مجھے نظر آئی میں اس پر جھپٹا… اور ایسے معرکوں میں کودا جہاں سے بچنے کا تصور بھی محال تھا… مگر دیکھو! مجھے وہاں موت نہیں آئی… میں اپنے بستر پر وفات پا رہا ہوں… شہادت کی اس حسرت کا اظہار فرما کر… زندگی کے آخری لمحات کو بھی دعوت جہاد بنا دیا… حالانکہ اُن کی وفات کئی اعتبار سے شہادت سے افضل تھی… اور وہ ’’شہدائ‘‘ سے زیادہ بلند مقام پر تھے… اور وہ اللہ تعالیٰ کی تلوارتھے… اس تلوار کو توڑنا یا موڑنا دنیا میں کسی کے بس میں نہیں تھا… الحمد للہ ماہنامہ ’’المرابطون‘‘ … حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر اپنا خصوصی شمارہ تیار کر رہا ہے… بندہ کو بھی اس میں ایک مفصل مضمون… ’’اللہ کی تلوار‘‘ … کے عنوان سے لکھنے کی سعادت ملی ہے… اس رسالے کو حاصل کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں… اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو جہاد میں دیکھنا پسند فرماتے ہیں…اللہ تعالیٰ کی جہادکے ساتھ محبت ایسی ہے کہ… اس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو… اپنی تلوار تک بنا لیتے ہیں… کتنے خوش نصیب ہیں وہ بہادر جو… اللہ تعالیٰ کی تلوار بن جاتے ہیں… کہاں بزدلی کی ناپاک غلامانہ زندگی… اور کہاں اللہ تعالیٰ کی چمکتی اور برستی تلواریں… یا اللہ! ہم پر بھی فضل فرما… بزدلی سے مکمل نجات عطاء فرما… ’’حُبِّ دنیا کی ناپاکی سے حفاظت فرما… اور ہمیں اپنے فضل سے… ’’سیف اللّٰہی ‘‘ نسبت عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭


 

ایک ’’عالم ربّانی‘‘ کی یاد میں

ایک ’’عالم ربّانی‘‘ کی یاد میں

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 641)

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ…
اور ایک بہت ضروری دعاء

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
اور ایک بڑی اہم دعائ:

اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ
اور ہماری اہم ضرورت:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ
خوف اور بے پردگی سے حفاظت:

اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا
 
کراچی میں کچھ ہی عرصہ پہلے ایک بزرگ گذرے ہیں …حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ… وہ راسخ فی العلم… محقق اور باعمل عالم تھے… ماشاء اللہ ’’عالم ربّانی‘‘… اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی مغفرت اور اکرام کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائے … اُن کے علم کو زندہ رکھے… اور اُن کے فیوض کو جاری فرمائے… ’’دعائ‘‘ میں اُن کا حال بڑا عجیب تھا… بہت ڈوب کر ’دعائ‘‘ مانگتے تھے… یوں لگتا تھا کہ جیسے گم ہو چکے ہیں… اُن کے آس پاس والے انتظار میں رہتے تھے کہ… حضرت کب دعاء کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں… تاکہ وہ بھی اُن کے ساتھ اس مبارک عمل میں شریک ہو جائیں… یوں حضرت والا کی وہ انفرادی دعاء بھی اجتماعی رنگ پکڑ لیتی تھی…

آج کیسے یاد آئی
اپنے اکابر و مشائخ تو الحمد للہ کبھی نہیں بھولتے … مگر کبھی کبھار کسی کی یاد بہت شدت سے آ جاتی ہے… آج صبح سے حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی یاد نے گھیراہوا ہے… اُن سے ملاقات اور تعارف اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے… وہ میرے باقاعدہ استاذ نہیں تھے مگر الحمد للہ اُن کی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا… اُن کے ساتھ افغانستان کا ایک یادگار سفر بھی ہوا… اور کئی پرفیض اور پررونق ملاقاتیں نصیب ہوئیں… حضرت والا نے کئی بار انعامات سے بھی نوازا… اور جہادی تحریر و تقریر کے معاملے میں میری حیثیت سے بڑھ کر حوصلہ افزائی فرمائی… وہ ایک الگ طبیعت اور مزاج کے بزرگ تھے… اللہ تعالیٰ نے انہیں رعب سے بھی نوازا تھا اور محبت سے بھی… ترک منکرات یعنی گناہ چھوڑنے کی دعوت… اُن کا خاص موضوع تھا… خود چونکہ ’’تقویٰ‘‘ کے مقام پر فائز تھے اس لئے دعوت میںتاثیر بھی بہت تھی… بدعات، منکرات اور خرافات کے سخت مخالف تھے…داڑھی منڈوانے اور ایک مشت سے کم کرانے کو بڑا سنگین جرم قرار دیتے تھے… اس موضوع پر اُن کی غیرت اور شدت سنت نبوی کے دفاع میں مکمل عروج پر جا پہنچتی تھی… اسی کی خاطر اپنے بہت سے اقارب کو کھو دیا مگر آخری دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے … ہاں بے شک جس موقف کو کسی انسان نے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اختیار کیا ہو … اس پر اسے مرتے دم تک قائم رہنا چاہیے … زمانے کے ساتھ رنگ بدلنے سے… وقتی ترقی تو ملتی ہے… مگر وہ انسان کے کسی کام کی نہیں ہوتی …اسی طرح خواتین کے شرعی پردے کے معاملے پر حضرت والا کا موقف بالکل دوٹوک اور عام دستور سے ہٹ کر کافی شدید تھا…ویسے جس طرح شرعی پردہ مسلمانوں میں معدوم ہوتا جا رہا تھا … اس میں ایسے ہی سخت موقف سے کچھ اصلاح ممکن تھی… اور فتنے کا سیلاب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا تھا …تیسری چیز جس پر حضرت والا کسی بھی طرح کی نرمی یا مفاہمت کے قائل نہیں تھے…وہ تھی تصویر بازی ، فوٹو بازی ، ویڈیو بازی اور ٹی وی وغیرہ … حضرت والا کی تقریباً ہر تقریر ، ہربیان اور ہر مجلس میں’’ تصویر بازی‘‘ پر سخت نکیر کی جاتی تھی…

حضرت والا نے اس پر کئی مستقل بیانات بھی فرمائے… ایک رسالہ بھی رقم کرایا اور اسے بڑی تعداد میں تقسیم فرمایا… اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ اپنے اس موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہے… اب معلوم نہیں وہ رسالہ کہیں ملتا ہو گا یا نہیں؟… اسے شائع کیا جاتا ہو گا یا نہیں؟ … دراصل ایک ملاقات میں حضرت والا نے بندہ کو تلقین فرمائی تھی کہ… اپنے مضامین میں حضرت والا کے رسائل ، مواعظ اور کتابچوں کی دعوت دیا کروں… اپنی نظر بندی کے دوران بندہ نے اس سلسلے میں مضامین شروع کر دئیے تھے… حضرت والا کے چند رسائل کا تعارف ان مضامین میں تفصیل سے آ گیا تھا… مگر پھر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور ناگزیر وجوہات کی وجہ سے وہ کالم ہی بند کرنا پڑا… آج مجھے پھر حضرت والا کا وہ حکم یاد آیا… تب خیال آیا کہ… اکابر کی باتوں میں کس قدر حکمت ہوتی ہے… حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا… اتنے بڑے عالم اور علامہ جن کے ہزاروں شاگرد ہیں … مگر آج اُن کے نظریات کو سمجھنے کے لئے…اُن کی اپنی تحریروں اور تقریروں کے علاوہ اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے … یقیناً بہت سے افراد… اب بھی حضرت والا کے نظریات اور فرمودات پر عمل کرتے ہوں گے …اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت والا صرف دو چار مشہور مسائل کا نام نہیں تھے … مگر پھر بھی کچھ اکابر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ… اُن کے انتقال کے بعد… اُن کا نام، اُن کے مشہور نظریات اور اُن کا تذکرہ کچھ عرصہ کے لئے گم ہو جاتا ہے… لیکن ایک عرصہ گذرنے کے بعد پھر اچانک دھند چھٹتی ہے اور اُن کا نام اور کام چمکنے لگتا ہے… میں اسلامی تاریخ سے ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں … امت میں کئی ایسے حضرات بھی گذرے ہیں کہ اُن کے انتقال کے بعد اُن کا نام لینے…اور اُن کی کتابیں گھر رکھنے تک کو جرم قرار دیا گیا… مگر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد دھند چھٹ گئی… اور اُن کا نام اور کام دوبارہ زندہ ہو گئے … وجہ یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کیا ہوا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا… اور کوئی بھی نمائشی کام زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا… اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ… ’’اما الزبد فیذھب جفائ‘‘ … جھاگ بالآخر مٹ جاتی ہے… جب سیلاب آتا ہے تو جھاگ ہر طرف چھا جاتی ہے اور پانی اس کے نیچے گم ہو جاتا ہے … بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب ہمیشہ اسی طرح رہے گا… مگر پھر اچانک جھاگ ختم ہونے لگتی ہے اور پانی باقی رہتا ہے…

واماماینفع الناس فیمکث فی الارض
یعنی جس چیز سے انسانوں کو فائدہ ہوتا ہے وہ زمین پر برقرار رہتی ہے… اور اصل فائدہ… آخرت کا فائدہ ہے، دین کا فائدہ ہے…

حضرت بری ہیں
آج صبح ایک بیان سنا… یہ بیان حضرت والا کی طرف منسوب ادارے میں کیا گیا اور اس میں جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت کی گئی … اور مقدس افغان جہاد کو امریکی جنگ کہا گیا… تب مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب… افغان جہاد کی نمایاں شخصیت حضرت مولانا جلال الدین حقانی… جو کہ ’’شامل ثانی‘‘ اور ’’فاتح خوست‘‘کے لقب سے معروف ایک … مثالی مجاہد اور عالم ربّانی تھے… اور یہ امارت اسلامی سے پہلے کے دور کا جہاد تھا … حضرت حقانی کراچی تشریف لائے تھے … اور حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نے آپ کا والہانہ استقبال فرمایا تھا…حضرت والا کے علمی ادارے میں حضرت حقانی کا مفصل بیان ہوا… اور پھرحضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے افغانستان کا جہادی سفر کیا… اور اس دورے میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ… اگر میں جہاد میں شرکت کے لئے یہ سفر نہ کرتا تو میری زندگی ادھوری رہ جاتی…

بہرحال حضرت والا افغان جہاد کو شرعی جہاد سمجھتے تھے اور جو کچھ آج ہم سن رہے ہیں وہ بیان کرنے والوں کے اپنے نظریات ہیں… جبکہ حضرت والا ان افکار و نظریات سے بری ہیں…

ایک گزارش
میرے اس کالم کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے… مجھے تنقید کرنے سے ڈر لگتا ہے… کیونکہ جب تک اپنا خاتمہ ایمان پر نہ ہو جائے… اس وقت تک ہر انسان خود خطرے میں رہتا ہے…جو لوگ دین کا کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سب کی نصرت اور رہنمائی فرمائے… آپ اگر میرے آج کے مضمون کو غور سے پڑھیں گے تو… آپ کو اس میں کہیں بھی کسی پر تنقید نظر نہیں آئے گی… اکابر و مشائخ سب کے مشترک ہوتے ہیں… حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بھی … ہم سب کے بزرگ تھے… اُن کی یاد میں درست اور اچھی باتیں لکھنا اور بولنا یہ سب کا حق ہے… اگر کل اُن کے اپنے ادارے کے اجتماع میں… انہیں یاد نہیں کیا گیا… تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں… اہل اختیار کو اپنے معاملات کا خود اختیار ہوتا ہے… اور اگر آج ہم نے اپنی مجلس کو اُن کے تذکرے سے مہکایا ہے تو اس پر بھی کسی کے لئے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے… اللہ تعالیٰ حضرت والا کی اُن باتوں کو… جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں امت میں جاری اور زندہ فرمائے… اور ہم میں سے جس کی بھی جو بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اور امت کے لئے نافع نہیں ہے… اللہ تعالیٰ اسے مٹا دے… معاف فرما دے… بندہ آپ سب سے حضرت والا کے مواعظ اور رسائل پڑھنے کی گذارش کرتا ہے…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭